الحمد للہ.
اول:
اگر دنیا میں انسان مذہبی اور دینی اعتبار سے صحیح سمت پر ہو تو یہ اس کے دنیاوی طور پر خوش حال اور آخرت میں کامیاب ہونے کی علامت ہے، ایک مسلمان کا سب کچھ اس کا دین ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی سستی اور کوتاہی کرتے ہوئے اپنے دین کو فتنوں سے نہ بچائے تو وہ خسارے میں ہے، دوسری طرف اگر اپنے دین کو فتنوں سے محفوظ رکھے تو وہ کامیاب و کامران ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي وَاجْعَلْ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ وَاجْعَلْ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ [ یا اللہ! میرے دینی معاملات کی اصلاح فرما کہ جس میں میری نجات ہے، یا اللہ! میری دنیا بھی درست فرما دے کہ جس میں میرا معاش ہے، اور میری آخرت بھی اچھی بنا دے میں نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور میرے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے] مسلم: (2720)
مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اَللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي [یا اللہ! میرے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں میری نجات ہے] کا مطلب یہ ہے کہ: دین کی وجہ سے میری ہر چیز قائم و دائم ہے، اگر دینداری ہی سبوتاژ ہو گئی تو تمام کے تمام امور درہم برہم ہو گئے اور دنیا و آخرت میں ناکامی ہی ناکامی ہو گی۔
" فیض القدیر" ( 2 / 173 )
دوم:
ایک مسلمان اللہ تعالی کی توفیق سے اپنے دین کو فتنوں سے محفوظ کرتا ہے؛ اور جس راستے پر چلنے کا مومنین کو حکم دیا گیا ہے اسی راہ کا راہی بنتا ہے ،وہ راستہ درج ذیل امور کو شامل ہیں:
1- اخلاقی اور دینی اعتبار سے گرے ہوئے معاشرے سے دور رہے، اس کیلیے کفار کے علاقوں میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرے، اپنے آپ کو فاسقوں کی صحبت سے بچائے، چنانچہ جو شخص دین میں بگاڑ اور خرابیاں پیدا کرنے کے اسباب سے دور رہے گا تو اللہ تعالی کے حکم سے اس کا دین بگڑنے سے محفوظ رہے گا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کفار کے معاشرے میں رہنے والا مسلمان شخص کفریہ معاشرے سے متاثر ہو جائے ، ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کے بارے میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ وہ دین اسلام سے بیزار ہو گئے، جنہوں نے اپنے دین کا سودا فانی دنیا سے کر لیا؛ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ کفریہ معاشرے اور کافروں سے مرعوب ہو گئے، اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کا دل اور ضمیر دونوں مردہ ہو گئے۔
گزشتہ معاملے سے ملتی جلتی یہ بات بھی ہے کہ : مسلمانوں کے درمیان ایسے اختلافات سے دور رہے جن میں دخل اندازی کی وجہ سے باہمی بغض، لا تعلقی اور معرکہ آرائی کو ہوا ملے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں کے ہاں سر اٹھانے والے فتنوں کے حالات کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ: کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جسے ان امور میں دخل اندازی کا فائدہ ہوا ہو؛ کیونکہ ایسے امور میں دخل اندازی کا دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے نقصان ہوتا ہے، اسی لیے اسے شریعت میں منع قرار دیا گیا ہے، لہذا ایسے امور سے بچ کر رہنا ان فرامین الہیہ میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ: اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں فتنہ یا درد ناک عذاب نہ پہنچ جائے۔[النور: 63]"
" منهاج السنَّة النبوية " ( 4 / 410 )
2- مسلمان کیلیے دین بچانے کے متعلق معاون امور میں یہ بھی شامل ہے کہ: اپنا ایمان مضبوط بنائے، اس کیلیے واجبات کی ادائیگی اور حرام امور سے اجتناب یقینی بنائے، چنانچہ سب سے بڑا فرض اور واجب نماز ہے، اس لیے مسلمان کو نماز قائم کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ مقررہ وقت پر ، شرائط، ارکان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ
ترجمہ: اور نماز قائم کر، بیشک نماز برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔[العنكبوت: 45]
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے نیکیاں کرنے کی ترغیب دلائی ہے تا کہ کوئی فتنہ آپ کے دین کو داغ دار نہ کر سکے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زر، زن، اور منصب جیسے دنیاوی فتنوں سے خبردار کیا کہ کہیں ان کی وجہ سے اپنے دین کا سودا نہ کر بیٹھیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ رات کے وقت کوئی شخص مسلمان ہو اور جب صبح ہو تو وہ مرتد ہو چکا ہو! یا یہ بھی ممکن ہے کہ دن میں مسلمان ہو اور رات کے وقت مرتد ہو جائے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے قبل نیک عمل کر لو [جن میں] انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا، وہ اپنا دین دنیا کے مال و متاع کے عوض بیچ دے گا) مسلم: (118)
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہم بات یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے خبردار فرمایا، جس میں انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا –اللہ تعالی اپنی حفاظت میں رکھے- ایک دن میں ہی انسان اسلام سے پھر جائے گا، دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟ اس کی وجہ کیا ہو گی؟ دنیا کے بدلے میں اپنے دین کا سودا کر لے گا، اب آپ یہ مت سمجھیں کہ دنیا سے مراد صرف مال ہے، بلکہ اس میں دنیا کی ہر چیز شامل ہے، چاہے وہ مال کی صورت میں ہو یا عزت و جاہ کی شکل میں یا دنیاوی منصب یا عورت سمیت کسی بھی صورت میں ہو، دنیا کی ہر چیز دنیاوی متاع میں داخل ہو گی اور اسی کو اللہ تعالی نے سازو سامان سے تعبیر کیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ تم دنیاوی ساز و سامان کی تلاش میں ہو! تو اللہ تعالی کے ہاں ڈھیروں غنیمتیں ہیں۔[النساء: 94] اس لیے دنیا میں کچھ بھی یہ عارضی ساز و سامان ہے۔
چنانچہ یہ جو لوگ صبح مومن ہوں گے تو شام کو کافر ہو جائیں گے یا شام کو مومن ہوں گے صبح کافر ہو جائیں گے یہ سب کے سب اپنا دین دنیا کیلیے فروخت کر دیں گے۔
اللہ تعالی سے دعا کہ ہمیں اور آپ سب کو فتنوں سے محفوظ رکھے، آپ سب بھی ہمیشہ فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے رہیں"
" شرح ریاض الصالحین " ( 2 / 20 )
3- اسی طرح دعا کریں، اللہ تعالی نے ہماری دعا کرنے کیلیے رہنمائی فرمائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جامع دعائیں سکھلائی ہیں جو کہ اپنے دین کو تحفظ اور محفوظ رکھنے والے کیلیے مفید ثابت ہوں گی، ان دعاؤں میں سے ہر رکعت میں پڑھی جانے والی دعا ہے جو کہ فرمانِ باری تعالی: (اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيم) یا اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دیکھا۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قنوت وتر کیلیے سکھائی ہوئی دعا : اَللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّکَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَی عَلَيْکَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ [اے اللہ ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرما جنہیں تو نے رشد و ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان میں شامل فرما دے جنہیں تو نے عافیت دی ہے اور جن کو تو نے اپنا دوست قرار دیا ہے ان میں مجھے بھی شامل کرکے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت ڈال دے اور جس شر و برائی کا تو نے فیصلہ کردیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ اور بچا لے۔ یقیناً فیصلہ تو ہی صادر کرتا ہے تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ کبھی عزت نہیں پاسکتا۔ ہمارے پروردگار! تو ہی برکت والا اور بلند وبالا ہے] ترمذی نے اسے روایت کیا ہےا ور حسن قرار دیا، نیز ابو داود: (1425) میں بھی یہ روایت موجود ہے۔
اس کے علاوہ بھی دیگر دعائیں بہت زیادہ ہیں جن میں ایک شخص اللہ تعالی سے دین پر قائم دائم رہنے اور نیکی کی دعا مانگتا ہے، اللہ تعالی سے صراط مستقیم پر چلانے اور اسی پر ثابت قدمی کا مطالبہ کرتا ہے، نیز اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کیلیے بہتر اور مختصر ترین راستے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔
4- برے دوستوں سے پرہیز: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے کوئی دوستی کرنے سے پہلے دیکھ لے کہ کس کو دوست بنا رہا ہے)
ابو داود: ( 4833 ) ترمذی:( 2378 ) نے روایت کر کے اسے حسن بھی قرار دیا ہے۔
خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تم صرف اسی کو اپنا دوست بناؤ جس کا دین اور امانت تمہیں پسند ہو؛ کیونکہ اگر تم ایسے شخص سے دوستی کرو گے تو وہ تمہیں اپنے دین اور مذہب کی جانب لے جائے گا، اس لیے کسی ایسے شخص سے دوستی کر کے اپنے دین کو خطرے میں مت ڈالوجس کا دین اور مذہب تمہیں پسند نہیں ہے"
" العزلة " ( ص 141 )
5- علم شرعی کا حصول، اور معتمد اہل علم سے رجوع:
مسلمان کو دین سے متعلقہ فتنوں سے محفوظ رکھنے کیلیے علم شرعی سب سے عظیم ترین وسیلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ جاہل لوگ اپنے دین کو فتنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں ، آپ نظر دوڑا کر دیکھیں کہ کتنے لوگ ہیں جو قبروں کا طواف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ مردے نفع یا نقصان کے مالک ہیں، کیونکہ اگر آپ ان کی حالت کو دیکھیں اور غور فکر کریں تو آپ کو علم سے کورے نظر آئیں گے، اور اگر کسی کو علم ہوا بھی تو وہ فانی دنیا کے حصول کیلیے اپنا دین فروخت کر چکا ہو گا۔
سوم:
اگر کوئی شخص دین سے متعلق فتنوں میں ملوّث ہو چکا ہو تو :
1- جتنی جلدی ہو سکے اس فتنے سے باہر آ جائے اور اس سے بالکل الگ تھلگ ہو جائے، نیز اللہ تعالی کے سامنے عاجزی و انکساری کےساتھ پکی توبہ بھی کرے، اللہ تعالی کے حقوق میں آنے والی کمی پر پشیمان بھی ہو، نیز آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا پختہ عزم بھی کرے۔
2- اپنا ماحول درست کرے اگر پہلے اس کے آس پاس کے لوگ اچھے نہیں تھے تو اب اچھے لوگوں سے تعلق بنائے۔
3- اللہ تعالی سے پورے اخلاص اور یقین کے ساتھ دعا کرے کہ اللہ تعالی اسے اس آزمائش سے نکال دے۔
4- زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرے اور اس کیلیے تن من کی بازی لگادے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ * وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ: نیز آپ دن کے دونوں طرفوں کے اوقات میں اور کچھ رات گئے نماز قائم کیجئے۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں[114] اور صبر کیجئے اللہ تعالیٰ یقینا نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ [سورہ ہود:114-115]
5- انسان کو کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مکمل دلائل اور اس کی جانچ پڑتا ل کر لینی چاہیے، اپنے بارے میں اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا کس جانب سے نقصان ہوا ہے، شیطان کو کس راستے اور دروازے سے گمراہ کرنے کی کامیابی ملی ہے؛ چنانچہ اگر جنسی شہوت کی وجہ سے وہ فتنے میں مبتلا ہوا تو پھر جتنی جلدی ہو سکے شادی کا انتظام کرے ؛ اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر کثرت سے روزے رکھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اس کی شہوت ٹوٹ جائے گی۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث نبوی کا مفہوم کہ روزے سے شہوت کا زور ٹوٹ جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جنسی برے خیالات ختم ہو جاتے ہیں جیسے کہ خصی ہونے سے جنسی طاقت ختم ہو جاتی ہے"
اور اگر فتنے میں پڑنے کا سبب جنسی شہوت نہیں تھا بلکہ شبہات ہیں تو پھر ان شبہات کا علاج بالضد کرے ، اوپر کی سطور میں احادیث نبویہ کی روشنی میں فتنوں سے بچاؤکیلیے اسباب ذکر کئے گئے ہیں ۔
واللہ اعلم.