الحمد للہ.
اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر نعمتیں لا تعداد ہیں، پھر اہل ایمان کو اللہ تعالی نے دنیا میں خصوصی احسانات سے نوازا کہ انہیں دین اسلام اپنانے کی توفیق دی، انہیں قرآن کی دولت سے نوازا، اور پھر جنت میں بھی انہیں ایسی نعمت سے نوازے گا کہ وہ سب سے بڑی نعمت ہو گی، اور وہ ہے جنت عدن میں اللہ تعالی کا دیدار، اس کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ:
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ [22] إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ
ترجمہ: اس دن کچھ چہرے تر و تازہ ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔[القیامہ: 22 - 23]
یعنی اہل ایمان کے چہرے خوبصورت ، تر و تازہ اور پر مسرت اس لیے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے ر ب کا دیدار کر لیا ہے، اسی لیے حسن رحمہ اللہ کہتے تھے: "اہل ایمان کی نظر اپنے رب پر پڑی تو رب کے نور کی وجہ سے صاحب نضارت [تر و تازگی] ہو گئے"
ایسے ہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ یعنی چہرے اللہ تعالی کی نعمتوں کی وجہ سے تر و تازہ ہوں گے۔ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ یعنی: چہرے اپنے رب کی طرف حقیقت میں دیکھ رہے ہوں گے۔ یہی موقف محدثین اور اہل سنت مفسرین کا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ
ترجمہ: ان کے لیے جنت میں من چاہی چیزیں ہوں گی، اور ہمارے پاس مزید انعام بھی ہے۔[ق: 35]
یہاں مزید انعام میں سے مراد اللہ تعالی کے چہرے کا دیدار ہے، جیسے کہ یہی تفسیر سیدنا علی اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ
ترجمہ: نیکیاں کرنے والوں کے لیے بہترین بدلہ اور اضافی انعام ہے۔[یونس: 26]
تو یہاں پر بہترین بدلہ سے مراد جنت اور اضافی انعام سے مراد اللہ تعالی کے چہرے کا دیدار ہے، اس آیت کریمہ کی یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بیان فرمائی ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (266) میں ہے کہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، تو اللہ تبارک و تعالی فرمائے گا: تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں ؟ جنتی جواب دیں گے: کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے ؟! کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟) [یعنی مطلب یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا چیز عطا ہو سکتی ہے؟] آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چنانچہ اس پر اللہ تعالی پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عزوجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو ۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ
جب آپ کو یہ علم ہو گیا کہ اہل جنت کو دیدار الہی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ملے گی تو اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جن مجرموں کو دیدار الہی سے محروم کیا جائے گا وہ کتنے خسارے اور محرومی میں ہوں گے ، اللہ تعالی نے ایسے مجرموں کے بارے میں دھمکی دیتے ہوئے فرمایا:
كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ
ترجمہ: یقینی بات ہے: بلاشبہ انہیں اس دن ان کے رب سے دور رکھا جائے گا۔[المطففین:15]
امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگر ربیع بن سلیمان امام شافعی رحمہ اللہ سے بڑی پیاری بات نقل کرتے ہیں کہ: میں محمد ابن ادریس شافعی رحمہ اللہ کے پاس آیا تو آپ کے پاس کسی کا رقعہ موجود تھا، جس میں لکھا ہوا تھا کہ: آپ فرمانِ باری تعالی: كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: "جس وقت ناراضی میں مجرموں کو اللہ تعالی سے دور رکھا گیا تو اس میں دلیل ہے کہ حالت رضا میں اللہ کے ولیوں کو اللہ کا دیدار ہو گا۔"
ذیل میں کچھ دلائل موجود ہیں جو کہ اہل ایمان جنت میں پروردگار کا دیدار کریں گے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین میں سے چند دلائل درج ذیل ہیں:
1- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: (کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ ) لوگوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا: ( کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟) لوگوں نے کہا: نہیں یا رسول اللہ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔۔۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6088) اور مسلم : (267) نے روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں عربی الفاظ لا تَضَامُّون یا لا تُضَارُّونَ شک کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، کوئی بھی لفظ ہو ہر دو صورت میں مطلب یہ ہے کہ: تمہیں دیدار الہی میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہو گا، نہ ہی ایسا ہو گا کہ کچھ کو دیدار ہو اور کچھ کو دیدار نہ ہو، نیز دیدار الہی میں تمہیں کسی قسم کی تھکاوٹ بھی محسوس نہیں ہو گی۔ واللہ اعلم
مختصراً ماخوذ از شرح صحیح مسلم
2- سیدنا جرید بن عبد اللہ بَجَلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودھویں رات کو ہمارے پاس تشریف لائے اور چودہویں کے چاند کو دیکھ کر فرمایا : تم اپنے رب کو قیامت کے دن اس طرح اپنی آنکھوں سے دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اللہ تعالی کے دیدار میں تمہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہو گا۔ اس حدیث کو امام بخاری: (6883) اور مسلم : (1002) نے روایت کیا ہے۔
ان احادیث مبارکہ میں تشبیہ صرف دیکھنے میں ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم سورج کو صاف مطلع والے دن بالکل واضح دیکھتے ہیں ، اس سورج کو دیکھنے والے کتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی کسی دوسرے کے دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنتا، اسی طرح دیدار الہی کے وقت بھی کوئی کسی کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے چودہویں رات کے مکمل چاند کو بالکل واضح طور پر ہم دیکھتے ہیں، اسے دیکھنے والے کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو جائیں چودہویں کے چاند کی روشنی ماند نہیں پڑتی، بالکل اسی طرح اہل ایمان بھی قیامت کے دن مکمل واضح طور پر دیدار الہی کریں گے۔ لہذا ان احادیث مبارکہ میں یہ نہیں ہے کہ -نعوذ باللہ- ذات باری تعالی سورج یا چاند کی مانند نظر آئے گی۔ اللہ تعالی کی ذات جیسا کوئی نہیں ہے وہ سننے والی اور دیکھنے والی ذات ہے۔
3- سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دو جنتیں ہیں جس کے برتن اور ہر چیز چاندی کی ہے۔ اور دو جنتیں سونے کی ہیں کہ اس میں برتن اور ہر چیز سونے کی ہے۔ جنت عدن میں لوگوں اور چہرۂ الہی کے دیدار کے درمیان صرف کبریائی کی چادر ہے ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4500) اور مسلم : (6890) نے روایت کیا ہے۔
اللہ تعالی کے جنت میں دیدار کے حوالے سے روایات تقریباً 30 صحابہ کرام سے منقول ہیں، ان تمام روایات کو اچھی طرح سمجھنے پر یہ بات قطعا کہی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیدار الہی کا تذکرہ کیا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص اب بھی یہ دعوی کرے کہ اللہ تعالی کا آخرت میں دیدار نہیں ہو گا تو یہ شخص قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو جھٹلا رہا ہے، ایسا شخص اپنے آپ کو اللہ تعالی کے فرمان :
كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ
ترجمہ: یقینی بات ہے: بلاشبہ انہیں اس دن ان کے رب سے دور رکھا جائے گا۔[المطففین:15] میں موجود وعید میں شامل کر رہا ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں عافیت سے نوازے، نیز ہم اللہ تعالی سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے چہرے کے دیدار کی لذت بھی نصیب فرمائے۔ آمین
مزید کے لیے دیکھیں: شرح العقيدة الطحاوية ( 1 / 209)سے آگے کے صفحات، اور اسی طرح : الشیخ حافظ حکمی کی کتاب: أعلام السنة المنشورة کا صفحہ نمبر: 141 کا بھی مطالعہ کریں۔