الحمد للہ.
جس عورت كا دوران حج خاوند فوت ہو جائے اس كى دو حالتيں ہونگى:
پہلى حالت:
حج كے ليے نكلنے سے قبل اسے خاوند فوت ہونے كى خبر ملے، تو اس عورت كے ليے حج پر جانا جائز نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر اس پر فرضى حج ہو اور اس كا خاوند فوت ہو جائے تو اسے اپنےگھر ميں عدت گزارنى واجب ہوگى چاہے حج رہ جائے وہ عدت گزارےگى؛ كيونكہ حج پر جانے سے گھر ميں عدت گزارنا رہ جائيگى اور اس كا كوئى بدل نہيں؛ ليكن اس كے مقابلہ ميں آئندہ برس حج كرنا ممكن ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 135 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك عورت اپنے خاوند كے ساتھ حج كا عزم ركھتى تھى كہ شعبان ميں اس كا خاوند فوت ہوگيا تو كيا وہ حج كے ليے جا سكتى ہے ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
" اس بيوہ عورت كے ليے دوران آئمہ اربعہ كے ہاں دوران عدت حج كا سفر كرنا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 29 ).
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 45519 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوسرى حالت:
حج كے ليے جانے كے بعد خاوند فوت ہونے كى خبر ملے تو اس عورت كى حالت كو ديكھا جائيگا اگر تو وہ ابھى قريب ہو كہ اس نے نماز قصر كرنے كى مسافت طے نہ كى ہو تو وہ واپس گھر آ كر عدت گزارےگى اور حج كے ليے نہيں جائيگى ليكن اگر قصر كى مسافت سے زيادہ سفر كر چكى ہو تو پھر وہ اپنا سفر جارى ركھے اور اس كے ليے واپس آنا لازم نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر عورت گھر سے سفر پر نكلے اور راستے ميں خاوند فوت ہو جائے اگر قريب ہو تو واپس پلٹ آئے كيونكہ وہ مقيم كے حكم ميں ہے، اور اگر دور ہو تو پھر اپنا سفر جارى ركھے، امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں: جب تك وہ احرام نہيں پہنتى اسے واپس پلٹا ديا جائيگا.
ليكن صحيح يہى ہے كہ دور چلى جانے والى عورت كو واپس نہيں پلٹايا جائيگا.
اگر قريب ہو تو واپس پلٹنے كے وجوب كى دليل سعيد بن سميب كا قول ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى عورتوں كے خاوند فوت ہوگئے اور وہ حج يا عمرہ پر جا رہى تھيں تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ذوالحليفہ سے انہيں واپس كر ديا تا كہ وہ اپنے گھروں ميں عدت گزار سكيں.
اور اس ليے بھى كہ سفر دور نہ ہونے كى وجہ سے ان كے ليے گھر ميں عدت گزارنا ممكن تھا اس ليے يہ لازم ٹھرا بالكل اسى طرح جو آبادى سے دور نہ ہوا ہو، اور دور چلى جانے والى كو واپس آنا لازم نہيں ہے؛ كيونكہ اس كے ليے مشقت ہے اور واپسى كے ليے اسے سفر كى ضرورت ہے، تو وہ اپنے مقصد كو پہنچنے والى كے مشابہ ہوئى.
دور چلى جانے والى عورت جب واپس آئے اور اس كى عدت كے ايام باقى ہوں تو وہ اپنے خاوند كے گھر جا كر عدت گزارے، ہمارے علم كے مطابق تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں كيونكہ اس كے ليے اس گھر ميں عدت گزارنا ممكن ہے، اس ليے يہ لازم ہوا جس طرح وہ سفر نہ كرتى تو لازم تھا " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 8 / 134 - 135 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جب كوئى عورت حج كے ليے جائے اور جدہ پہنچ كر اسے خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملے تو كيا وہ حج مكمل كرے يا كہ عدت كے ليے رك جائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" وہ اپنا حج مكمل كريگى؛ كيونكہ اگر واپس آتى ہے تو سفر كر كے آئيگى، اور اگر وہيں رہتى ہے تو سفر ميں رہےگى اس ليے حج مكمل كرے خاص كر جب حج فرضى ہو اور حج كے بعد واپس پلٹے، چاہے حج نفلى بھى ہو تو بھى مكمل كريگى " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 58 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
جو عورت حج كے ليے گئى اور حج ميں اسے خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تو وہ حج مكمل كرے، اس كے ليے حج ترك كر كے واپس پلٹنا لازم نہيں؛ كيونكہ اس ميں مشقت ہے ليكن جب حج كے بعد واپس آئيگى تو عدت كے باقى ايام خاوند كےگھر گزارنا واجب ہونگے.
واللہ اعلم .