جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

تورات و انجیل کی بے ادبی کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال

مجھے یہ معلوم ہے کہ قرآن کریم کی بے ادبی کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر ہم نے قرآن کریم پڑھنے کے لیے اٹھانا ہے تو اسے ادب کے ساتھ واپس رکھیں گے، لیکن کیا یہی معاملہ تورات اور انجیل کے ساتھ بھی ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہر مسلمان پر اللہ تعالی کے تمام رسولوں اور اللہ تعالی کی نازل کردہ تمام کتابوں پر ایمان لانا واجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ
ترجمہ: رسول اس پر ایمان لایا جو اُس پر اس کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا، اور تمام مومن بھی ایمان لائے، سب کے سب اللہ تعالی پر ، اور اللہ کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ ہم [اجمالی طور پر ایمان لاتے ہوئے ] اللہ تعالی کے کسی بھی رسول کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ [البقرۃ: 285]

"چنانچہ تمام کے تمام اہل ایمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، نہ ہی اس کے سوا کوئی رب ہے، سب اہل ایمان تمام انبیائے کرام اور رسولوں سمیت اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (1/736)

ہمیں اللہ تعالی نے یہ بھی بتلا دیا ہے کہ اہل کتاب نے تورات اور انجیل میں تحریفات کی ہیں، انہوں نے کلام الہی بدل کر رکھ دیا، تاہم ان کی یہ تحریفیں مکمل کتاب میں نہیں تھیں، چنانچہ ان کی انہی محرف کتابوں میں سچ باتیں بھی شامل ہیں، اسی لیے ان کتابوں کی بے ادبی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان میں کچھ نہ کچھ کلام الہی اپنی اصل حالت میں موجود ہے، اسی طرح ان کتابوں میں اللہ تعالی کے اسما و صفات کا بھی ذکر ہے۔

چنانچہ علامہ ہیتمی رحمہ اللہ "تحفة المحتاج" (1/178) میں کہتے ہیں:
"سچ بات یہ ہے کہ: تورات و انجیل دونوں کتابوں میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ ان باتوں میں تحریف نہیں ہوئی؛ کیونکہ وہ باتیں ہماری شریعت کے بالکل مطابق ہیں۔ " ختم شد

اسی طرح علامہ خطیب شربینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی ایسی چیز سے استنجا کرنا جائز ہے جو قابل احترام نہ ہو ۔۔۔ چنانچہ قاضی ؒ نے تورات و انجیل کے اوراق سے اس کی اجازت دی ہے۔ قاضی ؒ کے اس قول کو تورات و انجیل کے ان اوراق کے بارے میں محمول کیا جائے گا جن میں یقینی طور پر تحریف ہو چکی ہے اور ان میں اللہ تعالی کے نام وغیرہ جیسی قابل احترام عبارت نہیں ہے۔" مختصراً ختم شد
"مغني المحتاج" (1/162-163)

علامہ خرشی ؒ اپنی کتاب "شرح مختصر خلیل "(8/63) میں کہتے ہیں:
"قرآن کریم کے نسخے کی طرح ایسی چیزوں کا بھی احترام ہو گا جن میں اللہ کا نام ہے، اسی طرح انبیائے کرام کے نام ہیں؛ کیونکہ یہ بھی قابل احترام چیزیں ہیں۔" ختم شد

علامہ حطاب رحمہ اللہ "مواهب الجليل" (1/287) میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے ناموں کا احترام کرنا لازم ہے، اگرچہ اللہ تعالی کے نام ایسی جگہوں پر لکھے ہوں جن کی بے ادبی کرنا واجب ہو، مثلاً: تورات و انجیل کے تحریف شدہ حصے چنانچہ محرف تورات و انجیل کو جلانا اور انہیں تلف کرنا جائز ہے، لیکن اللہ تعالی کے ناموں کی وجہ سے ان کی بے ادبی بھی جائز نہیں ہے۔" ختم شد

دوم:

کسی بھی مسلمان کو سابقہ نازل شدہ کتب رکھنا زیب نہیں دیتا، ہاں اگر کوئی اہل علم میں سے اور وہ ان کتابوں کو پڑھ کر ان میں موجود جھوٹی اور تحریف شدہ چیزیں عیاں کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے جائز ہے۔

اس کی وجہ مسند احمد: (14736) میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : "سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اہل کتاب سے ملی ہوئی کوئی تحریر لے کر آئے، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پڑھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر غضب ناک ہوئے اور فرمایا: (خطاب کے بیٹے! کیا اس کتاب کے بارے میں اتنے پسپا ہو چکے ہو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے پاس روشن اور صاف شریعت لے کر آیا ہوں، تم ان سے کچھ نہ پوچھا کرو، مبادا وہ تمہیں بات سچ بتلائیں اور تم اسے جھٹلا دو۔ یا وہ تمہیں جھوٹی بات بتلائیں تو تم اس کی تصدیق کر دو۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر موسی علیہ السلام خود بھی زندہ ہوتے ، تو انہیں بھی میری ہی اتباع کرنی پڑتی۔) " اس حدیث کوالبانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل: (6/34) میں حسن قرار دیا ہے۔

اور اگر ہمیں اہل کتاب کی کتابوں میں سے کچھ مل جائے تو ہم اسے اپنے پاس محفوظ نہ رکھیں، تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم اس کی بے ادبی کریں اور کوڑے وغیرہ میں پھینک دیں، ہاں اسے مزید بے ادبی دے بچانے کے لیے جلا دیں؛ کیونکہ ان کتابوں میں اللہ تعالی کا نام اور اللہ تعالی کی صفات ضرور ہوتی ہیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی کتابوں میں ایسی چیز ہو جسے اہل کتاب ابھی تک تبدیل نہ کر سکے ہوں اور وہ اپنی اصلی حالت میں موجو دہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب