سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

قرض کی ادائیگی کے وقت قرض خواہ کو تحفہ دینے یا اس کا کوئی کام کرنے کا حکم

سوال

اگر میں نے کسی سے قرض لیا ہو اور قرض واپس کرنے سے پہلے قرض خواہ مجھ سے مطالبہ کرے میں اس کے لیے کوئی چیز خرید لوں، اور اس کی رقم وہ مجھے بعد میں دے دے گا۔ تو اب کیا میں یہ کر سکتا ہوں کہ جب وہ مجھے رقم دینے لگے تو میں اسے قرض سے جمع خرچ کر دوں؟ اگرچہ میرے قرض کی رقم اس چیز کی قیمت سے کم ہو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

قرض احسان اور خیر خواہی سے تعلق رکھتا ہے، قرض دیتے ہوئے قرض خواہ کے لیے کسی فائدے کی شرط لگانا، یا بغیر شرط لگائے عرف کے طور پر ہی کچھ فائدہ لینا جائز نہیں ہے، علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر وہ قرض جس سے فائدہ ہو تو وہ سود ہے۔

آپ نے سوال میں جو کچھ ذکر کیا ہے اس میں دو چیزیں ہیں:

پہلی: آپ قرض خواہ کے لیے خریداری کریں۔ تو اگر اس خریداری کے لیے آپ کوئی اضافی خرچہ برداشت نہیں کریں گے، یا قرضہ لینے سے پہلے بھی آپ قرض خواہ کے لیے چیزیں خرید لیا کرتے تھے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس خریداری کی وجہ سے آپ کو اضافی خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے، اور عام طور پر خریداری کا معاوضہ بھی لیا جاتا ہے، آپ قرضہ لینے سے پہلے اس کے لیے خریداری بھی نہیں کرتے تھے تو پھر آپ یہ کام اس کے لیے مفت میں نہیں کریں گے؛ کیونکہ اس صورت میں یہ قرض کے بدلے نفع میں شمار ہو گا، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔

زاد المستقنع میں ہے کہ:
"اگر قرض خواہ کا مقروض نے پورا قرضہ چکانے سے پہلے کوئی بھلا کیا، حالانکہ قرض سے پہلے ان کے درمیان ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی تو یہ جائز نہیں ہے، الا کہ قرض خواہ مقروض کو اس کا پورا بدلہ دے یا اس بھلائی کے عوض قرضے سے رقم منہا کر دے۔"

دوسری: آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے ذمہ قرض سے زائد رقم آپ اسے معاف کرنا چاہتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ قرض میں اس چیز کی شرط نہ ہو، اس کی دلیل صحیح بخاری: (2393) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ایک آدمی کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مخصوص عمر کا اونٹ قرض تھا ، تو وہ شخص اپنا قرض لینے آیا، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ: اسے اس کا اونٹ دے دیا جائے۔ صحابہ کرام نے تلاش کیا تو مطلوبہ عمر سے بڑی عمر کا اونٹ ہی ملا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسے وہی دے دو؛ یقیناً تم میں سے بہتر وہ ہے جو بہتر انداز سے قرض چکائے۔)

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (4/ 212)میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص مقروض کو بغیر کسی شرط کے قرضہ دے، پھر مقروض اسے مقدار یا صفات میں اچھی چیز دے، یا قدرے کم دونوں کے رضا مندی سے دے تو یہ جائز ہے ۔۔۔ اس بارے میں ابن عمر، سعید بن مسیب، حسن بصری، نخعی، شعبی، زہری، مکحول، قتادہ، مالک، شافعی اور اسحاق وغیرہ نے رخصت دی ہے۔۔۔۔
ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جواں سالہ اونٹ قرضے میں لیا تو اس سے بڑی عمر کا اونٹ واپس کیا تھا اور فرمایا: (یقیناً تم میں سے بہتر وہ ہے جو بہتر انداز سے قرض چکائے) متفق علیہ۔ جبکہ بخاری میں الفاظ ہیں: (تم میں سے افضل وہ ہے جو اچھے طریقے سے قرض چکائے)۔ ویسے بھی یہ اضافہ قرض کے عوض میں نہیں تھا، نہ ہی قرض کے لیے وسیلہ تھا، نہ ہی قرض پورا لینے کے لیے ایسا کیا گیا اس لیے یہ حلال ہے بالکل ایسے ہی جیسے ان دونوں کے درمیاں قرض کا معاملہ تھا ہی نہیں۔۔۔۔

اور اگر کوئی شخص اچھے انداز سے قرض واپس کرنے میں معروف ہو تو اس کو قرضہ دینا پھر بھی مکروہ نہیں ہو گا۔ قاضی کہتے ہیں: یہاں ایک وجہ اور ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے اسے مکروہ کہا جا سکتا ہے کہ: کوئی شخص ایسے شخص کو قرض دینے کی چاہت ہی اس لیے رکھتا ہے کہ واپس زیادہ ملے گا۔ تو یہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم قرض واپس کرنے کے معاملے میں معروف تھے، تو کیا کسی کے لیے یہ گنجائش ہے کہ یہ کہے: آپ کو قرض دینا مکروہ ہے۔ ویسے بھی اچھے انداز میں قرض واپس کرنے والا شخص لوگوں میں سے افضل بھی ہے اور بہترین بھی ہے تو اس لیے ایسے شخص کی ضرورت کو تو آگے بڑھ چڑھ کر پورا کرنا چاہیے، اور اس کے مطالبے کو پورا کریں، وہ اگر پریشان ہو تو اس کی پریشانی کو حل کریں، تو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اس کے ساتھ یہ حسن سلوک مکروہ ہو گا۔ یہاں اصل میں مشروط اضافہ منع ہے۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب