الحمد للہ.
اول:
كتاب و سنت اور اجماع امت كے ساتھ بيوى سے دبر يعنى پاخانہ والى جگہ مجامعت كرنا حرام ہے، اور اس ليے كہ اس سلسلہ ميں شديد قسم كى وعيد آئى ہے يہ كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور يہ لوگ آپ سے حيض كے بارہ ميں دريافت كرتے ہيں آپ انہيں كہہ ديں كہ يہ گندگى ہے، حيض كى حالت ميں عورتوں سے عليحدہ رہو، اور ان كے قريب مت جاؤ حتى كہ وہ پاك صاف ہو جائيں، اور جب وہ پاك صاف ہو جائيں تو پھر ان كے پاس وہيں سے جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہيں حكم ديا ہے، يقينا اللہ تعالى توبہ كرنے والوں سے محبت كرتا ہے، اور پاك صاف رہنے والوں كو پسند فرماتا ہے، تمہارى عورتيں تمہارى كھيتياں ہيں، تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ البقرۃ ( 222 - 223 ).
يہاں كھيتى سے مراد ولادت والى جگہ يعنى قبل عورت كى شرمگاہ ہے، اس ليے مرد كے ليے جائز ہے كہ وہ اپنى بيوى سے قبل ميں كسى بھى كيفيت ميں چاہے جماع كر سكتا ہے، چاہے وہ پچھلى جانب سے قبل ميں جماع كرے يا پھر اگلى جانب سے ليكن شرط يہ ہے كہ جماع قبل ميں ہى كيا جائے نہ كہ دبر يعنى پاخانہ والى جگہ ميں.
اس سلسلہ ميں درج ذيل احاديث وارد ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى بھى حيض والى عورت سے يا پھر اپنى بيوى كے ساتھ دبر ميں جماع كرتا ہے، يا كسى كاہن اور نجومى كے پاس گيا تو اس نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كردہ ( دين ) كے ساتھ كفر كا ارتكاب كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 135 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3904 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 369 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 2433 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كى دبر ميں جماع كرنے والے شخص پر لعنت كرتے ہوئے فرمايا:
" وہ شخص ملعون ہے جو عورت كى دبر ميں جماع كرتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2162 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 2432 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ سبحانہ و تعالى ايسے شخص كى جانب نہيں ديكھے گا جو كسى مرد كے ساتھ لواطت كرتا ہے، اور نہ ہى ايسے شخص كى طرف ديكھےگا جو عورت كى دبر ميں جماع كرتا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1166 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے سنن ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حديث كے بارہ ميں كہتے ہيں:
" اس حديث كے بہت سارے طرق ہيں سب كو ملا كر يہ قابل حجت بن جاتى ہے " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 8 / 191 ).
دوم:
آپ كے علم ميں رہنا چاہيے كہ يہ عمل ـ حرام ہونے كے ساتھ ساتھ ـ مرد اور عورت دونوں كے ليے فساد و خرابى اور ضرر كا بھى باعث ہے جس كى بنا پر ايسے عمل سے نفرت كرنا اور دور رہنا اور بھى ضرورى اور واجب ہو جاتا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ يہ نقصانات بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اور اس ميں يہ نقصان اور ضرر بھى پايا جاتا ہے كہ:
عورت كو حق حاصل ہے كہ اس كا خاوند اس كے ساتھ وطئ اور مجامعت كرے، اور عورت كى دبر ميں مجامعت كرنے سے بيوى كا حق وطئ جاتا رہتا ہے اور اس طرح عورت كى خواہش پورى نہيں ہوتى، اور نہ ہى مطئ و مجامعت كا مقصد پورا ہوتا ہے.
اور پھر يہ بھى ہے كہ:
ايسا كرنے ميں مرد كو ضرر اور نقصان ہوتا ہے، اسى ليے عقل و دانش ركھنے والے طبيب اور فلسفى وغيرہ سب ايسا كرنے سے منع كرتے ہيں، كيونكہ عورت كى فرج كو يہ خاصيت حاصل ہے كہ وہ اندر جانے والے پانى كو جذب كرتى ہے، اور اس سے مرد كو راحت حاصل ہوتى ہے.
ليكن دبر ميں وطئ كرنے سے سارا پانى جذب نہيں ہوتا اور نہ ہى عضو تناس سے سارا پانى خارج ہوتا ہے كيونكہ يہ طبعى معاملہ كے خلاف ہے اس ليے نقصاندہ ہے.
اور اس ميں يہ بھى نقصان اور خرابى پائى جاتى ہے كہ:
ايسا كرنا عورت كے ليے بہت زيادہ نقصان اور ضرر كا باعث بنتا ہے، كيونكہ يہ طبيعت سے دور اورغير طبعى فعل ہے، اور طبيعت اس سے انتہائى قسم كى نفرت كرتى ہے.
اور يہ بھى خرابى پائى جاتى ہے كہ:
اس سے غم و پريشانى پيدا ہوتى ہے، اور فاعل و مفعول سے نفرت حاصل ہوتى ہے.
اور يہ بھى خرابى پائى جاتى ہے كہ:
اس سے چہرہ سياہ ہو جاتا ہے، اور سينے ميں اندھيرا چھا جاتا ہے، اور دل كا نور اور روشنى جاتى رہتى ہے، اور چہرے پر وحشت چھا جاتى ہے، اور يہ اس كى علامت بن جاتى ہے جسے ادنى سى فراست ركھنے والا شخص پہچان جاتا ہے.
اور اس ميں يہ خرابى بھى پائى جاتى ہے كہ:
اس سے شديد قسم كى نفرت و ناراضگى پيدا ہوتى ہے اور فاعل و مفعول كے مابين باہمى تعلقات منقطع ہو جاتے ہيں اور ايسا ضرور ہوتا ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 262 ).
سوم:
آپ كو چاہيے كہ خاوند كو اپنے ساتھ يہ قبيح عمل نہ كرنے ديں، بلكہ ايسا كرنے سے باز رہيں چاہے اس كے ليے آپ كو اپنے ميكے ہى كيوں نہ جانا پڑے، بلكہ اس سے بھى بڑھ كر اگر طلاق كا بھى مطالبہ كرنا پڑے تو كوئى حرج نہيں.
خاص كر آپ كے اس خاوند كو تو اس قيح عمل سے منع كرنا اور بھى يقينى ہو جاتا ہے كہ آپ بيان كر رہى ہيں كہ شادى سے قبل بھى وہ لواطت كرتا تھا، اللہ محفوظ ركھے، اگر وہ آپ كے ساتھ يہى عمل اب بھى كرتا ہے اور اس كى بجائے فرج ميں مباح وطئ پر اكتفا نہيں كرتا تو پھر اس گندے كام پر مصر رہنا اسے دوبارہ اسى لواطت اور فحاشى ميں لےجانے كا باعث بن جائيگا، اور اس سلسلہ ميں وہ جو عذر بيان كرتا ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں.
كيونكہ وہ تو آپ كو آگ اور اللہ جبار كے غضب كى دعوت دے رہا ہے، اور انسان كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى دوسرے كو راحت دينے كے ليے اپنے آپ كو تباہ كر لے ـ اگر اس جيسے كام ميں راحت ہو تو ـ بلكہ اس ميں تو دونوں كى ہى تباہى ہے.
جب وہ كچھ ايام صحيح ہوا ہے ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعاگو ہيں كہ وہ اسے اس بيمارى اور وبا سے محفوظ ركھے اور آپ بھى اس سلسلہ ميں ايسے عمل پر يقينى انكار كر كے اس كى معاونت كريں تا كہ وہ آپ سے حرام كام ميں شريك ہونے سے بالكل نااميد ہو جائے، اور اس سلسلہ ميں اس كى خواہش اور اميد بھى ختم ہو جائے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اپنى بيوى سے دبر ميں وطئ كرنے والے شخص پر كيا واجب ہوتا ہے، اور كيا كسى عالم دين نے ايسا كرنا مباح قرار ديا ہے يا نہيں ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
رب العالمين:دبر ميں وطئ كرنا كتاب اللہ اور سنت نبويہ كے دلائل سے حرام ہے، اور صحابہ كرام اور تابعين عظام سب آئمہ كا بھى يہى مسلك ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں فرمايا ہے:
تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں، تم اپنى كھيتيوں ميں جس طرح چاہو آؤ، اور اپنے ليے ( نيك اعمل ) آگے بھيجو .
اور صحيح بخارى ميں ثابت ہے كہ:
" يہودى كہا كرتے تھے كہ جب كوئى شخص اپنى بيوى سے پيچھے كى جانب سے قبل ميں جماع كرے تو بچہ بھينگا پيدا ہوتا ہے، چنانچہ اس كے متعلق مسلمانوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو اللہ عزوجل نے يہ آيت نازل فرمائى:
تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں تم اپنى كھيتيوں ميں جس طرح چاہو آؤ .
يہاں كھيتى سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بيج بويا جاتا ہے اور بچے كا بيج تو صرف فرج ميں ہى بويا جاتا ہے دبر ميں نہيں.
اس كے علاوہ ايك اثر ميں يہ وارد ہے كہ:
دبر ميں وطئ كرنا لواطب صغرى كہلاتى ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ سبحانہ و تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا؛ تم عورتوں كے ساتھ ان كى دبر ميں وطئ مت كرو "
يہاں الحشوش سے مراد دبر ہے، جو كہ گندگى كى جگہ ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو حيض والى عورت سے حالت حيض ميں فرج ميں وطئ كرنا حرام قرار دى ہے حالانكہ يہ گندگى اور نجاست عارضى ہے، تو پھر وہاں جہاں مستقل طور پر مغلظہ نجاست پائى جائے كيسے حال ہوگا.
اور پھر يہ بھى كہ يہ تو لواطت كى جنس سے تعلق ركھتى ہے.
اور پھر شيخ الاسلام رحمہ اللہ يہاں تك كہتے ہيں:
" جس نے بھى بيوى سے دبر ميں وطئ كى اسے ضرور سزا دى جائے اور يہ سزا ايسى ہونى چاہيے جو اسے اس كام سے روكے، اور اگر يہ معلوم ہو جائے كہ وہ پھر بھى باز نہيں آتے تو پھر ان دونوں ( خاوند اور بيوى ) ميں عليحدگى كرانا ضرورى ہے "
واللہ تعالى اعلم " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 267 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
جناب والا ميرے اس سوال كا جواب ضرور ديں كيونكہ ميرے ليے بہت اہم سوال ہے اور مجھے پريشان كيے ہوئے ہے:
ميرا خاوند ميرے ساتھ پيچھے ـ يعنى دبر ميں ـ سے وطئ كرنا چاہتا ہے اور ميں ايسا كرنے سے انكار كرتى ہوں، ليكن وہ مجھے اتنا مجبور كر ديتا ہے كہ ميں رونے بھى لگ جاتى ہوں اور انكار كرتى ہوں، ليكن وہ پھر بھى مجھے ايسا كرنے پر مجبور كرتا ہے، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
عورت كے ساتھ دبر ميں وطئ كرنا كبيرہ گناہ ہے، حتى كہ اس سلسلہ ميں شديد قسم كى وعيد آئى ہے، اس ميں كفر كى بھى وعيد آئى ہے، اور لعنت كى وعيد بھى، اور اسے لواطت صغرى كا نام ديا گيا ہے.
اس كى حرمت ميں بہت سارى نصوص پائى جاتى ہيں اور بعض سلف رحمہ اللہ سے اس كى جو اباحت بيان كى جاتى ہے وہ اس سلسلہ ميں ان كے ذمہ غلط لگايا گيا ہے، جيسا كہ زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ نے ذكر كيا ہے.
اس سے تو ان كى مراد يہ ہے كہ پيچھے سے قبل ميں وطئ كى جائے، اور يہ جائز ہے اس ميں كوئى حرج نہيں كہ انسان اپنى بيوى كے پيچھے سے قبل ميں جماع اور وطئ كرے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں تم جہاں سے چاہو اپنى كھيتى ميں آؤ البقرۃ ( 223 ).
ليكن بيوى سے دبر ميں وطئ كرنا جائز نہيں ہے، يہاں ايك مسئلہ ہے وہ يہ كہ:
بعض لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ اگر كسى شخص نے ايسا كيا ـ يعنى جب بيوى كى دبر ميں وطئ كى تو ـ نكاح ٹوٹ جاتا ہے، حالانكہ ايسا نہيں، بلكہ نكاح تو باقى ہے، ليكن اگر وہ بار بار اور مستقل طور پر ايسا كرے تو پھر ايسا كرنے والے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى كرانا واجب ہے.
بيوى كو چاہيے كہ وہ بقدر استطاعت پورى طاقت سے خاوند كو ايسا كرنے سے منع كرے، پہلے تو ميرى خاوندوں كو يہ نصيحت ہے كہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كريں، اور اپںے آپ كو سزا كا مستحق مت بنائيں.
اور پھر ميرى بيويوں كو يہ نصيحت ہے كہ: وہ بالكل ايسا كرنے سے باز رہيں، چاہے اس كے نتيجہ ميں انہيں اپنے ميكے بھى جانا پڑے تو وہ ميكے چلى جائے، اور ايسے خاوند كے پاس مت رہے، تو اس حالت ميں بيوى اپنے خاوند كى نافرمان نہيں ٹھرےگى، كيونكہ وہ تو ايك معصيت و گناہ سے دور بھاگى ہے.
اور اگر اس سے بھاگ كر وہ ميكے چلى جاتى ہے تو اس صورت ميں وہ خاوند سے نان و نفقہ حاصل كرنے كا حق ركھتى ہے، چاہے وہ اپنے ميكے ايك يا دو ماہ بھى رہے تو وہ اخراجات كا مطالبہ كر سكتى ہے، كيونكہ ظلم تو خاوند كى جانب سے ہے اس ليے كہ خاوند كے ليے بيوى كو اس غلط كام پر مجبور كرنا حلال نہيں تھا " انتہى
ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 59 / 14 ).
رہا اس كا يہ دعوى كہ: ايسا اس ليے كرتا ہے تا كہ وہ حرام كى طرف نہ ديكھ سكے:
تو يہاں وہ جو كچھ چاہتا ہے وہ بعينہ حرام ہے، تو پھر كيا فرق ہوا: ( يہ تو بالكل ايسے ہى ہے جيسے كوئى شخص لو سے بچنے كے ليے آگ كا سہارا لے ) ؟!!
اور اگر وہ سچا ہے تو اس كے ليے حيض اور نفاس كى مدت ميں جماع كے علاوہ باقى ہر چيز سے لطف اٹھانا جائز ہے نہ تو وہ اس مدت ميں قبل ميں وطئ و جماع كر سكتا ہے اور نہ ہى دبر ميں، اور اگر اس كے ليے اسے آپ كے جسم كے بھى حصہ ميں انزال كرنا پڑے يا پھر آپ كے ہاتھ سے تو بھى اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن شرط يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے جو حرام كى ہے اس جگہ سے اجتناب كرے!!
اللہ كے بندو كيا حلال اور اچھى چيز ميں كفائت نہيں ہے!!
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے خاوند كو ہدايت دے، اور اس كى اصلاح فرمائے، اور آپ دونوں سے شر و فتنہ اور بلاء كو دور كرے.
واللہ اعلم .