سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

نسوار استعمال كرنے كا حكم، آيا يہ روزہ توڑ ديتى ہے يا نہيں ؟

152586

تاریخ اشاعت : 27-08-2010

مشاہدات : 17715

سوال

ميرے والد صاحب بہت پريشان ہيں اور دس برس سے علاج معالجہ كروا رہے ہيں، اس برس رمضان المبارك ميں ان كى پريشانى اور بڑھ گئى اور وہ سارى رات نہ سوتے بلكہ صبح دس بجے كے بعد نيند آتى، اور بہت عرصہ سے نسوار ( يہ مادہ نچلے ہونٹ كے نيچے ركھا جاتا ہے ) تقريبا پچيس برس سے وہ نسوار استعمال كر رہے ہيں.
اس برس تو انہوں نے رمضان المبارك ميں بھى نسوار استعمال اور اسى طرح پچھلے برس بھى روزے كے دوران نسوار استعمال كرتے رہے ہيں، ان كا كہنا ہے كہ اس سے پريشانى ميں كمى ہوتى ہے.
اگر اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو جن ايام ميں انہوں نے نسوار استعمال كى ان پركيا واجب ہوتا ہے، تقريبا اس برس تيرہ يوم، اور پانچ يوم پہلے، كيا وہ كھانا ديں يا كيا كريں ؟
برائے مہربانى جتنى جلدى ہو سكے سوال كا جواب ديں اور ميرے اور ميرے والد صاحب كى شفايابى كےليے دعا فرمائيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ اور آپ كے والد اور سب مسلمانوں كو شفايابى و عافيت نصيب فرمائے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى بڑے كرم و جود والا ہے.

دوم:

نسوار ايك ايسا تمباكو ہے جسے جلايا نہيں جاتا بلكہ اس ميں كچھ دوسرا مواد ملا كر بعض لوگ اپنے منہ ميں ركھتے ہيں، اور اس كا حكم بھى سگرٹ كے حكم سے مختلف نہيں ہے بلكہ وہى حكم ہوگا جو سگرٹ كا ہے.

شيخ عبد اللہ بن حبرين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" بلاشك و شبہ سگرٹ اور نسوار وغيرہ حرام ہيں؛ كيونكہ يہ سب خبيث اور گندى اشياء ہيں، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

وہ ان كے ليے پاكيزہ اشياء حلال كرتا ہے، اور ان پر خبيث اور گندى اشياء حرام كرتا ہے .

اور اس ليے بھى كہ يہ صحت كے ليے نقصاندہ ہے، اور پھر اس سے كئى قسم كى گندى بيمارياں بھى پيدا ہوتى ہيں جو موت كا باعث بن سكتى ہيں يا موت كےمقدمات ميں شامل ہوتى ہيں.

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اپنےآپ كو قتل مت كرو .

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور تم اپنے آپ كو ہلاكت ميں مت ڈالو .

اور اس ليے بھى كہ يہ مال كو خراب كرنا اور ضائع كرنے اور بغير كسى فائدہ كے صرف كرنا شمار ہوتا ہے، اور فضول خرچى كرنے والے كو شيطان كے بھائى قرار ديا گيا ہے.

ہمارى نصيحت ہے كہ جو بھى اس كے استعمال كى بيمارى ميں مبتلا ہے وہ جلد از جلد توبہ كرتے ہوئے اس سے چھٹكارا حاصل كر لے، اور پختہ عزم كرے كہ وہ آئندہ اسے استعمال نہيں كريگا.

اور اسے ترك كرنے كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے استعانت حاصل كرے، اور كچھ روز صبر كرتے ہوئے استعمال نہ كرے تا كہ وہ بالكل خلاصى حاصل كر سكے اور اسے پريشانيوں اور تكليف سے آرام حاصل ہو جائے، اللہ سبحانہ و تعالى ہى شفا دينے والا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 446 ).

سوم:

نسوار سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس ليے جب نسوار منہ ميں ركھى جائے تو وہ حل ہو كر اس ميں سے كچھ اجزاء تھوك كے ساتھ مل كر پيٹ اور معدہ ميں جاتے ہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

نسوار كا عمومى حكم كيا ہے، اور خاص كر رمضان المبارك ميں روزے كى حالت ميں استعمال كرنے والے شخص كا حكم كيا ہو گا ؟

اور كيا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے يا نہيں ؟ يہ علم ميں رہے كہ تھامہ قحطانى علاقہ كے بعض لوگ رمضان المبارك ميں دن كے وقت استعمال كرتے ہيں ان كا دعوى ہے كہ اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا.

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

نسوار ايك خبيث اور گندا مادہ ہے؛ كيونكہ يہ گندے اور حرام مواد پر مشتمل ہے، روزے كى حالت ميں نسوار استعمال كرنے ميں گناہ كے ساتھ ساتھ روزہ بھى ٹوٹ جائيگا، جس طرح روزہ توڑنے والى باقى اشياء كے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس سے بھى ٹوٹ جائيگا "

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ صالح الفوزان.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 142 ).

اس بنا پر آپ كے والد پر لازم ہے كہ وہ پچھلے رمضان اور اس سے قبل رمضان ميں نسوار استعمال كر كے توڑے گئے روزوں كى قضاء كرنا ہوگى، ليكن اگر آپ كے والد كو يہ علم نہيں تھا كہ نسوار سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر آپ كے والد كا روزہ صحيح ہے كيونكہ روزہ توڑنے والى اشياء سے جہالت كى بنا پر اسے معذور سمجھا جائيگا.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 93866 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.

آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے والد صاحب كو نصيحت كرنے كى كوشش كريں كہ وہ اس خبيث اور گندى چيز نسوار كو چھوڑ ديں، آپ انہيں يہ بتائيں كہ نسوار ميں كسى بھى پريشانى كا كوئى علاج نہيں، بلكہ يہ تو پريشانى ميں اور بھى اضافہ كا باعث ہوگى.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے والد صاحب كو توبہ كى توفيق نصيب كرے، اور آپ كے والد كى توبہ قبول فرمائے.

پريشانى كے علاج كے ليے آپ سوال نمبر ( 106614 ) اور ( 21515 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب