اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

وقت يا حكم سے جہالت كى بنا پر روزہ توڑنے والى اشياء كا استعمال كرنا

سوال

ميں نے سوال نمبر ( 80425 ) ميں آپ كا جواب پڑھا، ميں بالكل اسى سائل والى مشكل سے دوچار تھا، ليكن مجھ ميں اور اس سائل ميں صرف فرق اتنا تھا كہ جب كھانا ميرے حلق تك پہنچ جاتا تو ميں اسے دوبارہ نگل ليتا، كيونكہ ميرا خيال تھا كہ ايسا كرنے سے روزہ نہيں ٹوٹتا، اس ليے كہ يہ معدہ سے آيا ہے اور ميں نے اسے وہيں واپس كر ديا ہے ( يہ ميرى جہالت تھى ) ميں نے پڑھا ہے كہ مجھ پر قضاء واجب ہے، ليكن مجھے ان ايام كى تعداد كا علم نہيں جن ميں مجھ سے يہ فعل سرزد ہوا ہے، كيونكہ ايسا ماضى ميں ہوتا رہا ہے، اور اب ميں يہ عادت چھوڑ چكا ہوں، اس ليے مجھے اب كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب آپ كو يہ علم ہى نہ تھا كہ ايسا كرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس ليے آپ پر قضاء نہيں ہے؛ كيونكہ صحيح قول كے مطابق روزہ توڑنے والى اشياء سے جاہل ہونا عذر شمار ہوتا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" وہ اشياء جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے مرد كے اختيار كے ساتھ ان سے روزہ اس وقت ٹوٹےگا جب اس ميں تين شرطيں پائي جائيں:

پہلى شرط:

وہ اس كو جانتا ہو يعنى اس كا علم ركھتا ہو، اور علم كى ضد جہالت ہے.

چنانچہ جب كوئى انسان كھا لے اور وہ جاہل ہو تو اس پر قضاء نہيں ہے.

اور جہالت كى دو قسميں ہيں:

اول: حكم سے جاہل ہونا:

مثلا انسان جان بوجھ كر عمدا قئ كرے ليكن اسے يہ علم نہ ہو كہ ايسا كرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، تو اس شخص پر قضاء نہيں كيونكہ وہ جاہل تھا، اس كى دليل يہ ہے كہ حكم سے جاہل شخص كا روزہ نہيں ٹوٹتا.

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عدى بن حاتم رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ انہوں نے اپنے تكيہ كے نيچے دو رسياں ركھيں ايك سياہ اور دوسرى سفيد، اور عقال ان رسيوں كو كہا جاتا ہے جن سے اونٹ كا گھٹنا باندھا جاتا ہے، چنانچہ عدى رضى اللہ تعالى عنہ ان دونوں رسيوں كو ديكھنے لگے، اور جب انہيں سياہ رسى سے سفيد رسى نظر آنے لگى تو انہوں نے كھانا پينا بند كر ديا.

اور جب صبح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گئے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كے متعلق بتايا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" پھر تو آپ كا تكيہ بہت وسيع و عريض ہے، كہ اس نے اپنے نيچے سياہ اور سفيد دھاگہ سميٹ ليا، بلكہ يہ تو دن كى سفيدى اور رات كى سياہى ہے "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قضاء كا حكم نہيں ديا كيونكہ وہ اس آيت كريمہ كے معنى سے جاہل تھے.

دوم: وقت سے جاہل ہونا:

مثلا: انسان يہ خيال كرتے ہوئے كھائے پيئے كہ ابھى فجر طلوع نہيں ہوئى، ليكن يہ واضح ہو كہ طلوع فجر ہو چكى ہے تو اس شخص پر بھى قضاء نہيں، اور اسى طرح وہ دن كے آخر ميں يہ خيال كرتے ہوئے روزہ افطار كر لے كہ سورج غروب ہو چكا ہے، اور پھر اسے يہ پتہ چلے كہ ابھى تو سورج غروب نہيں ہوا تو اس شخص پر بھى قضاء نہيں.

اس كى دليل صحيح بخارى كى وہ حديث ہے جسے اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہما نےروايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ہم نے ايك دن ابرآلود ہونے كى صورت ميں روزہ افطار كر ليا اور پھر سورج نكل آيا "

اس سے وجہ دلالت يہ ہے كہ اگر ان كا روزہ فاسد ہو جاتا اور ان پر قضاء واجب ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں ايسا كرنے كا حكم ديتے، اور اگر آپ نے يہ حكم ديا ہوتا تو وہ بھى ہم تك نقل ضرور ہوتا، كيونكہ يہ شريعت كى حفاظت ميں شامل ہوتا ہے.

اس ليے جب يہ منقول نہيں تو يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس كا حكم نہيں ديا، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ايسا كرنے كا حكم نہيں ديا تو يہ معلوم ہوا كہ روزہ فاسد نہيں ہوا، اور اس حالت ميں قضاء نہيں ہو گى.

ليكن انسان كو چاہيے كہ اسےجب بھى اس كا علم ہو جائے تو وہ كھانے پينے سے رك جائے، چاہے لقمہ اس كے منہ ميں بھى ہو تو اسے نكالنا واجب ہے " انتہى

ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 19 / 116 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

پھر انہوں نے دوسرى اور تيسرى شرط ذكر كرتے ہوئے كہا ہے كہ: وہ اسے ياد ہو، اور اختيار كے ساتھ كرے.

اس سے علم ہوا كہ آپ پر قضاء نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب