جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

معنوی طہارت اور نجاست

سوال

میں کچھ فقہی کتابوں کا مطالعہ کر رہا تھا تو مجھے ایک اصطلاح نظر آئی "سخت معنوی نجاست" اس کے تحت انہوں نے شرک، کفر، اور کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا ہے۔ پھر اس کے بعد "ہلکی نجاست" کا ذکر کیا اور اس میں بے وضگی، اور صغیرہ گناہوں سمیت دیگر امور کا ذکر کیا ہے، تو کیا یہ تقسیم ٹھیک ہے؟ اور کیا سلف صالحین میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے؟ مجھے تفصیل سے بتلائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

طہارت کی دو قسمیں ہیں: حسی طہارت اور معنوی طہارت۔
نجاست کی بھی دو قسمیں ہیں: حسی نجاست اور معنوی نجاست۔

حسی طہارت: محسوس اور نظر آنے والی نجاست سے پاکیزگی۔

حسی نجاست: اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جنہیں شریعت نے نجس اور ناپاک کہا ہے، تو ان میں سے کچھ تو سخت نجس ہیں، مثلاً: کتا ۔ اور کچھ ہلکے درجے کی نجس ہیں، مثلاً: شیر خوار بچے کا پیشاب۔ اور کچھ درمیانے درجے کی نجس ہیں، مثلاً: پیشاب، خون اور مردار۔

حسی طہارت، اور حقیقی نجاست کے متعلق گفتگو فقہائے کرام اپنی کتابوں میں کرتے ہیں۔

معنوی طہارت اور معنوی نجاست کے متعلق گفتگو فقہائے کرام کی زیر بحث نہیں آتی، اسی لیے ان کی کتابوں میں ایسی گفتگو ضمنی طور پر ہو جائے الگ بات ہے وگرنہ نہیں ملتی۔

معنوی طہارت: یہ ہے کہ مومن شخص شرک اور کفر سے پاک ہو، اس میں معنوی نجاست کفر، فسق اور نافرمانی ہیں۔

معنوی طہارت و نجاست کے حوالے سے شرعی دلائل درج ذیل ہیں:

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: اور جس وقت فرشتوں نے کہا: اے مریم! اللہ تعالی نے تجھے چن لیا ہے، اور تجھے پاکیزہ بنایا اور سارے جہانوں کی خواتین میں سے تجھے منتخب کر لیا ہے۔[آل عمران: 42]

اس آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا: وَطَهَّرَكِ یعنی: تمہارے دین کو شکوک و شبہات، اور ایسی گندگی سے محفوظ رکھا جو بنی آدم کی خواتین کے ادیان میں پائی جاتی ہیں۔ " ختم شد
" تفسیر طبری" [5 /392]

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
 ترجمہ: آپ ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کر کے انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں، اور انہیں دعائیں دے، یقیناً آپ کی دعا ان کے لیے باعث سکینت ہے۔ اور اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا لے۔[التوبة :103]

اس آیت کی تفسیر میں امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں اللہ جل شانہ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا ہے: اے محمد! جن لوگوں نے اپنے گناہوں کے اعتراف کر کے گناہوں سے توبہ کی ہے ان کے مال سے صدقہ وصول کر کے انہیں گناہوں کی میل کچیل سے صاف کریں، پھر فرمایا: { وَتُزَكِّيهِمْ } یعنی اس صدقہ وصولی کے بعد ان کی فراوانی کا باعث بنیں اور انہیں منافقوں کے مرتبے سے بلند کر کے مخلص لوگوں کے مقام تک لے جائیں۔" ختم شد
" تفسیر طبری" [11 /659]

اسی طرح اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کے بارے میں فرمایا:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ ، وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ، وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ ، وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ، وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
 ترجمہ: تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکاۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو ۔ نبی کی گھر والیو! اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔ [الاحزاب: 33]

تو اس آیت کریمہ میں معنوی طہارت مراد ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی نے قومِ لوط کے بارے میں فرمایا:
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ ، إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
 ترجمہ: چنانچہ اس کی قوم کو کوئی جواب بن نہ آیا بجز اس کے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا : لوط اور اس کے ساتھیوں کو اپنے شہر سے نکال دو یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ [النمل: 56] یعنی گناہوں اور نافرمانیوں سے بچنے والے بنتے ہیں۔

سورت توبہ میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ، فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا
 ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً مشرک نجس ہیں، لہذا اس سال کے بعد مسجد الحرام کے قریب نہ آئیں۔ [التوبہ: 28]

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن کریم میں صرف شرک، زنا، لواطت کو نجاست اور خباثت کا علامتی نام دیا ہے، اگرچہ دیگر گناہوں میں بھی نجاست اور خباثت پائی جاتی ہے، جیسے کہ قرآن کریم میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ
 ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً مشرک نجس ہیں ۔ [التوبہ: 28]

اسی طرح لواطت میں ملوث قوم کے بارے میں فرمایا:
وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِثَ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ
ترجمہ: اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا اور اس بستی سے نجات دی جس کے رہنے والے گندے کام کرتے تھے۔ بلاشبہ وہ بہت برے اور نافرمان لوگ تھے۔ [الانبیاء: 74]

پھر لواطت میں ملوث قوم نے کہا تھا:
أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ ، إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
 ترجمہ: لوط اور اس کے ساتھیوں کو اپنے شہر سے نکال دو یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ [النمل: 56] یعنی انہوں نے اپنے شرک و کفر کے ساتھ اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ خود خبیث اور پلید لوگ ہیں، جبکہ لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھی پاکباز ہیں اور خود اس پاکیزگی سے کوسوں دور ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالی نے زنا میں ملوث لوگوں کے بارے میں فرمایا:
الخبيثات للخبيثين والخبيثون للخبيثات
ترجمہ: خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔[النور: 26]

جبکہ شرک کی نجاست بھی دو قسم کی ہے: سخت نجاست، ہلکی نجاست

سخت نجاست: شرک اکبر ہے جسے اللہ تعالی کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔

اور ہلکی نجاست: شرک اصغر ہے، مثلاً: معمولی ریا کاری، لوگوں کے سامنے تصنع اختیار کرنا، مخلوق کی قسم اٹھانا، مخلوق سے ڈرنا اور اسی سے امیدیں لگانا وغیرہ

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ: نجاست بسا اوقات ظاہری طور پر دکھنے والی ہوتی ہے، اور کبھی معنوی اور غیر مرئی ہوتی ہے۔" ختم شد
" إغاثة اللهفان من مصائد الشيطان " [1 /59]

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طہارت کا مطلب: نظافت اور صفائی ستھرائی ہے، شریعت میں اس کی دو قسمیں ہیں: معنوی اور حسی۔
معنوی طہارت کا مطلب یہ ہے کہ: دل اللہ تعالی کی عبادت کے معاملے میں شرک و بدعت سے پاک ہو، اور اللہ تعالی کی ایسی مخلوق کے بارے میں کینہ، چغلی، بغض اور دیگر بری اخلاقیات سے پاک ہو جو ایسی اخلاقیات کے مستحق نہیں ہیں۔۔۔

اسی لیے اللہ تعالی نے مشرکوں کو نجس قرار دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ
 ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً مشرک نجس ہیں ۔ [التوبہ: 28]

اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مومن کے نجس ہونے کی نفی فرمائی، اور کہا: (یقیناً مومن نجس نہیں ہوتا۔) تو مومن شخص کو اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے تا کہ اس کا دل بھی معنوی نجاست سے پاک رہے۔" ختم شد
" فقه العبادات " صـ 97

الشیخ صالح الفوزان کہتے ہیں:
"معنوی طہارت : شرک ،بدعات اور گناہوں سے پاکیزگی کا نام ہے۔ اسی لیے تعالی نے گناہوں سے دور رہنے والے لوگوں کو پاکباز رہنے والے قرار دیا۔
دوسری طرف شرک کو نجاست قرار دیا، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً مشرک نجس ہیں ۔ [التوبہ: 28] تو یہاں شرک معنوی نجاست ہے اور توحید معنوی طہارت ہے۔" ختم شد
الشرح المختصر على زاد المستقنع (1/52)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب