جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

خاوند نے تحلل اول کے بعد لیکن طواف افاضہ سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کر لی۔

سوال

ایک حاجی نے بڑے جمرے کو کنکریاں ماریں ، بال اتروائے اور پھر اپنا احرام کھول دیا، لیکن طواف افاضہ کرنے سے پہلے اپنی بیوی سے ہم بستری کر لی تو کیا اس کا حج صحیح ہے؟ اور کیا اس پر دم ہے؟ اور کیا اس پر فدیہ لازم آتا ہے؟ اگر فدیہ لازم ہے تو کیا وہ مکہ میں ہی ذبح کیا جائے گا، یا کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت کہیں بھی ذبح کیا جا سکتا ہے؟ برائے مہربانی کتاب و سنت کی روشنی میں  وضاحت فرما دیں، جزاکم اللہ خیرا

جواب کا متن

الحمد للہ.

تحلل اول کے بعد لیکن طواف افاضہ سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے کا حج فاسد تو نہیں ہو گا؛ لیکن اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے، ایسا شخص حدود حرم سے باہر نکل کر   حِل میں جائے اور دوبارہ سے احرام باندھے اور پھر طواف افاضہ کرے۔

ایسے ہی اس پر ایک بکری ذبح کرنا لازمی ہے جسے مکہ مکرمہ کے فقرا میں تقسیم کیا جائے گا، اور وہ خود اس میں سے کچھ بھی نہیں کھائے گا۔

اور اگر اس کی بیوی بھی احرام کی حالت میں تھی اور جماع کے لئے راضی بھی تھی تو اس پر بھی وہی کچھ ہو گا جو اس کے خاوند پر لازم ہوا ہے، تاہم اگر خاوند نے بیوی کو مجبور کیا تھا تو پھر بیوی پر کچھ نہیں ہے۔

"موسوعہ فقہیہ" (2 /192) میں ہے کہ:
"سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تحلل اول کے بعد جماع  سے حج فاسد نہیں ہوتا۔۔۔ تاہم اس پر کیا سزا لاگو ہوگی  اس میں اختلاف ہے: چنانچہ حنفی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اس پر بکری ذبح کرنا واجب ہے، انہوں نے اس کی دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ: یہ جرم ہلکی نوعیت کا ہے؛ کیونکہ اس حالت میں عورتوں کے علاوہ ہر چیز حلال ہو چکی ہوتی ہے۔

جبکہ امام مالک -یہ موقف حنبلی اور شافعی فقہائے کرام  سے بھی منقول ہے-کہتے ہیں کہ:  اس پر اونٹ ذبح کرنا واجب ہے؛ اس کی وجہ مالکی فقیہ الباجی  نے یہ بیان کی ہے کہ یہاں احرام کی حرمت کو پامال کیا گیا ہے اور یہ سنگین نوعیت کا جرم ہے۔

نیز امام مالک اور حنبلی فقہائے کرام نے تحلل اول کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے اس جرم کا ارتکاب کرنے والے پر یہ بھی لازمی قرار دیا ہے کہ وہ حدود حرم سے باہر جائے اور عمرے کا احرام باندھے؛ اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف ہے۔۔۔ جبکہ حنفی اور شافعی فقہائے کرام نے اس چیز کو واجب قرار نہیں دیا" ختم شد

الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تحلل کے بعد جماع کرنے سے حج فاسد نہیں ہوتا، چاہے حاجی حج افراد کر رہا ہو یا قران، اس سے صرف احرام فاسد ہو گا، یعنی مطلب یہ ہے کہ طواف افاضہ کرنے کے لئے اسے حدود حرم سے باہر جانا ہو گا ، وہ احرام باندھ کر دوبارہ مکہ میں داخل ہو اور ایسے صحیح احرام میں طواف افاضہ کرے جس میں اس نے حل اور حرم دونوں کی حدود  کو جمع کیا ہو۔

نیز اس پر بکری ذبح کرنے کی صورت میں فدیہ  بھی ہے، یہ فدیہ مساکین کو کھلایا جائے گا، وہ خود اس میں سے نہیں کھائے گا، اسی طرح اگر بیوی بھی ہم بستری پر راضی تھی  تو اس پر الگ سے بکری کا فدیہ ہو گا، تاہم اگر بیوی کو خاوند نے مجبور کیا تھا تو اس پر کچھ نہیں ہو گا۔" ختم شد
"فتاوى ورسائل محمد بن إبراهيم" (5 /203-204)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک شخص نے طواف افاضہ سے قبل جماع کر لیا، اس نے کنکریاں بھی مار لی تھیں اور سر کے بال بھی منڈوا لیے تھے، اب اس پر کیا لازم ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"اس پر یہی واجب ہے کہ وہ فدیہ ذبح کرے اور فقرائے مکہ میں تقسیم کر دے۔۔۔ نیز اس پر یہ بھی ہے کہ حدود حرم سے باہر جا کر احرام دوبارہ باندھے تا کہ احرام کی حالت میں طواف کر سکے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (90 /17)

اور اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر جا کر احرام نہیں باندھتا تو ہمیں امید ہے کہ اس کا طواف صحیح ہو گا، جیسے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک آدمی نے طواف افاضہ نہیں کیا، اور وہ اپنے علاقے میں چلا گیا اور بیوی سے ہم بستری کر لی ، تو اب اس پر کیا لازم ہے؟"

اس پر انہوں نے جواب دیا:
"وہ اللہ تعالی سے توبہ استغفار کرے، نیز اس پر مکہ میں ایک جانور ذبح کرنا لازمی ہے جسے وہاں کے مقامی فقرا پر تقسیم کرنا ہو گا، اور اس پر یہ بھی لازمی ہے کہ وہ طواف افاضہ کرنے کے لئے واپس آئے؛ کیونکہ طواف افاضہ کرنے سے پہلے بیوی سے تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر کوئی قائم کر لیتا ہے تو اس پر دم لازم ہو گا، یہاں صحیح موقف یہی ہے کہ اس کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا بھی کافی ہے، ایک بھیڑ وغیرہ ذبح کر دے، یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ  لے لے" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (17 /180)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب