الحمد للہ.
جس شخص نے بيوى كو مہر كے علاوہ اور سونا ديا اگر تو يہ بطور ہديہ تھا تو يہ سونا بيوى كى ملكيت بن جائيگا اور اس كے ليے وہ ہديہ واپس لينا جائز نہيں.
امام بخارى اور امام مسلم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنا ہبہ واپس لينے والا اس كتے كا مانند ہے جو قئي كر كے چاٹ ليتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2589 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1622 ).
اور بخارى كى روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" ہمارے ليے برى مثال نہيں، وہ جو اپنا ہبہ واپس ليتا ہے اس كتے كى طرح ہے جو قئي كر كے چاٹتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2622 ).
يہ حديث ہبہ واپس لينے كے حرام ہونے كى دليل ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى كو سامان سميت گھر ہبہ كيا تو كيا وہ اپنا ہبہ واپس لے سكتا ہے، اور اس كا طريقہ كيا ہو گا ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر خاوند كى جانب سے ديا گيا ہبہ بيوى نے اس طرح اپنے قبضہ ميں نہيں كيا جسے عرف ميں اپنے قبضہ ميں لينا كہا جاتا ہے تو پھر خاوند واپس لے سكتا ہے، ليكن ايسا كرنا مكارم اخلاق كے خلاف ہے.
اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اپنا ہبہ واپس لينے والا اس كتے كى طرح ہے جو قئي كر كے چاٹتا ہے "
اور اگر بيوى نے اس طرح اپنے قبضہ ميں كر ليا ہے جسے عرف عام ميں اپنے قبضہ ميں لينا شمار كيا جاتا ہے تو يہ بيوى كى ملكيت ہو چكى ہے، شرعى طور پر اسے بيوى كى رضامند كے بغير واپس نہيں ليا جا سكتا.
اس كے باوجود بيوى كى رضامندى سے بھى واپس لينا خلاف مروت اور مكارم اخلاق كے خلاف ہے، اور اگر خاوند اور بيوى ہبہ يا جسے قبضہ ميں لينا شمار كيا جاتا ہے اس ميں اختلاف كريں تو اس كا فيصلہ شرعى عدالت ميں كي جائيگا " انتہى
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 247 ).
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن منيع.
ليكن اگر خاوند نے اسے سونا عاريتا ديا ہے كہ بيوى اسے پہن كر زيب و زينت اختيار كرے اور فائدہ حاصل كرے، تو يہ سونا ابھى تك خاوند كى ملكيت ہے، بيوى كى ملكيت نہيں، اور خاوند كو واپس كرنے كا مطالبہ كرنے كا حق ہے.
واللہ اعلم .