الحمد للہ.
اول:
شريعت اسلاميہ نے كثرت نسل پر ابھارا اور نسل زيادہ كرنے كى ترغيب دلائى ہے؛ كيونكہ كثرت ميں امت كو عزت و قوت حاصل ہوتى ہے، اور روز قيامت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو امت كى كثرت پر فخر ہوگا.
معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ بچے جنتى ہو اور زيادہ محبت كرنے والى ہو، يقينا ميں تمہارے زيادہ ہونے سے دوسرى امتوں پر فخر كرونگا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ حسب استطاعت نسل ميں كثرت پيدا كريں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كثرت نسل كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے زيادہ ہونے پر دوسرى امتوں پر فخر كرونگا "
اور اس ليے بھى كہ كثرت نسل ميں امت كى كثرت ہے اور امت زيادہ ہونے ميں امت كى عزت پائى جاتى ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے بنى اسرائيل پر اسے بطور احسان اور نعمت ذكر كرتے ہوئے فرمايا:
اور ہم نے تمہيں بہت زيادہ افراد والا بنايا الاسراء ( 6 ).
اور شعيب عليہ السلام نے اپنى قوم كو فرمايا:
اور ياد كرو جب تم تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہيں زيادہ كر ديا الاعراف ( 86 ).
اس كا كوئى بھى انكار نہيں كرتا كہ كثرت امت اس كى عزت اور قوت كا سبب ہے، اور كثرت امت تو اس تصور كے برعكس ہے جو برا اور غلط گمان ركھنے والے ركھتے ہيں كہ كثرت امت فقر و محتاجگى اور بھوك كا باعث بنتى ہے، حالانكہ ايسا نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 190 ).
دوم:
بيٹے پر اس مسئلہ ميں اپنے والد كى اطاعت واجب نہيں ہے كہ باپ اسے اولاد كم پيدا كرنے كا كہے تو وہ تسليم كر لے اس ميں اس كى درج ذيل اسباب كى بنا پر اطاعت نہيں كى جائيگى:
پہلا سبب:
كيونكہ باپ ايسا حكم دے رہا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے خلاف ہے.
دوسرا سبب:
بچے پيدا كرنا خاوند اور بيوى دونوں كا مشتركہ حق ہے اس ليے اس ميں كسى دوسرے كو دخل دينے كا كوئى حق نہيں.
اور اس كے ساتھ يہ ہے كہ بيوى كو اپنى ساس كے ساتھ نرم رويہ اختيار كرنا چاہيے اور بات چيت ميں نرمى اختيار كرے تو وہ بھى مان جائيگى.
واللہ اعلم .