الحمد للہ.
قربانی صاحب استطاعت مرد اور عورت پر سنت مؤکدہ ہے، اور اس کا بیان سوال نمبر: (36432 ) کے جواب میں گزر چکا ہے، اور اس مسئلہ میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورت کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔
ابن حزم رحمہ اللہ "المحلى" (6/37) میں کہتے ہیں کہ:
"عید قربان پر کی جانے والی قربانی مقیم کی طرح مسافر بھی کر سکتا ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں، اور ایسے ہی عورت بھی کرسکتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَافْعَلُوا الْخَيْرَ اور نیکی کے کام کرو [الحج : 77] اور قربانی کرنا بھی نیکی کا کام ہے، اور جن لوگوں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان سب کو نیکی کی ضرورت بھی ہے اور انہیں ترغیب بھی دلائی گئی ہے، اورہم نے عید قربان کی قربانی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جو نقل کیا ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری یا دیہاتی، مسافر یا مقیم، مرد یا عورت میں کوئی فرق نہیں فرمایا، چنانچہ قربانی کیلئے ان میں سے چند لوگوں کو مختص کرنا باطل اور ناجائز ہے"انتہی مختصرًا
اور اگر کوئی خاتون اپنی طرف سے یا اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہئے تو اس پر بھی وہی پابندیاں ہونگی جو مردوں پر [قربانی کرنے کی نیت کرنے کی وجہ سے] عائد ہوتی ہیں، چنانچہ وہ اپنے بال، ناخن، یا اپنی جلد سے کوئی چیز نہ کاٹے؛ جیسے کہ مسلم (1977) میں ام سلمہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی نے [عید قربان کی]قربانی کرنے کا ارادہ کیا ہوتو اپنے بال یا ناخن مت کاٹے) مسلم ہی کی ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں: (جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہوجائے، اور تم میں سے کوئی [عید قربان کی] قربانی کا ارادہ کرے تو اپنی جلد اور بالوں میں سے کچھ نہ کاٹے)
واللہ اعلم .