الحمد للہ.
اول:
شادی شدہ عورت کی سہیلیوں کا ہونا ایک طبعی امر ہے کیونکہ شادی سے پہلے عورت کی سہیلیاں ضرور ہوتی ہیں شریعت اسلامیہ میں مطلقا کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جو عورت کو خاوند کی اجازت کے بغیر سہیلیاں بنانے سے منع کرتی ہو ۔ بلکہ اصولی طور پر اس کے تعلقات شادی کے بعد بھی ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے تھے کہ اپنی سہیلیوں سے میل جول رکھے گی اور سہیلیاں اسے گھر میں ملنے بھی آئیں گی عورت ان کی ضیافت کا اہتمام بھی کرے گی؛ صحابیات بلکہ امہات المومنین بھی ایسا کیا کرتی تھیں۔
چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: "ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور میرے گھر تشریف لائے تو میرے پاس بنی حرام کی انصاری عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں "
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1233 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 834 )۔
دیکھیں ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کی سہیلیاں تھیں، پھر ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس حدیث میں ظہر کی دو سنتیں قضا کرنے کا ذکر کیا ہے۔
دلائل تو بہت ہیں لیکن اوپر بیان کردہ ہی کافی ہے، بلکہ اصولی طور پر یہی ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی کی سہیلیوں کی عزت و تکریم کرنی چاہیے؛ چاہے بیوی فوت بھی ہو چکی ہو کیونکہ سنت نبوی میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
" میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی پر اتنی غیرت نہیں کھائی جتنی خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کھاتی تھی، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا تک نہیں تھا، وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بہت زیادہ یاد کرتے تھے، اور بعض اوقات تو بکری ذبح کرتے اور اس کا گوشت بنا کر خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سہیلیوں کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک بار میں نے کہا: لگتا ہے کہ دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی اور عورت ہی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( خدیجہ ؛ خدیجہ ہی تھی! اور ان سے میری اولاد بھی ہوئی )
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3607 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2435 )۔
دوم:
ہم جو کچھ اوپر بیان کر چکے ہیں وہ خاوند کی اطاعت سے متصادم بھی نہیں ہے، کہ اگر خاوند بیوی کو کسی سہیلی سے تعلقات منقطع کرنے کا حکم دیتا ہے، یا کسی کو ملنے سے منع کرتا ہے تو بیوی کو اطاعت کرنی چاہیے؛ کیونکہ مرد کو گھر میں حق نگرانی اور حق حکمرانی حاصل ہے وہ اپنی رعایا پر حاکم ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ
ترجمہ: مرد عورتوں پر حاکم و نگران ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالی نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس لیے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں [النساء : 34 ]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ( اور مرد اپنے گھر والوں کا ذمے دار اور نگران ہے اور اسے اس کی رعایا کے بارے میں جواب دینا ہوگا ) صحیح بخاری :( 853 ) صحیح مسلم :( 1829 )۔
بیوی کو خاوند کے گھر میں اسے داخل کر نے کی اجازت نہیں جسے خاوند نے داخل ہونے سے منع کر دیا ہو اور اسی طرح بیوی خاوند کے گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نہیں نکل نہیں سکتی، چاہے خاوند اسے اپنے گھر والوں سے ملاقات کرنے سے بھی روک دے تو بیوی کو رک جانا چاہیے۔ یہ ہو سکتا ہے خاوند اپنے اس فیصلے میں ظالم ہو تو اس کا گناہ خاوند کو ہی ہو گا، اور اگر اس کا فیصلہ صحیح ہوا تو اسے ثواب ملے گا۔ بہ ہر حال بیوی کو ہر صورت میں خاوند کی اطاعت کرنی چاہیے، کیونکہ عقلمند عورت اپنے خاوند کو کھو کر کسی عورت کو سہیلی نہیں بنائے گی کہ وہ کسی عورت کو اپنے خاوند پر ترجیح دے کر اپنے ہنستے بستے گھر ،خاوند اور بچوں کو چھوڑ دے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو؛ کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان سے حاصل کیا اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمہ سے حلال جانا ہے، اور تمہارا ان عورتوں پر حق ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو اسے تمہارے بستر پر بیٹھنے بھی نہ دیں، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں ہلکی مار کی سزا دو، اور انہیں لباس و نان و نفقہ اچھے طریقے سے حاصل کرنے کا حق حاصل ہے "
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 )
اس منع کرنے کا یہ معنی نہیں کہ خاوند بیوی کی سہیلی کی اخلاقیات یا دینداری پر قدغن لگا رہا ہے، کیونکہ مصلحت اور خرابی کی کئی ایک وجوہات ہوتی ہے، اور ہو سکتا ہے یہ وجوہات بیوی کے لیے واضح نہ ہوں۔
لیکن اگر خاوند بیوی کی سہیلی کے اخلاق یا دینی حالت کو واضح کرتا ہے تو اس میں مسئلہ واضح ہے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
آپ مزید معلومات اور فائدہ کے لیے سوال نمبر ( 112048 ) اور ( 10680 ) کے جواب کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم