سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اپنے گھر ميں خاوند كى اجازت كے بغير كسى كو داخل نہ ہونے دے

112048

تاریخ اشاعت : 11-09-2012

مشاہدات : 3897

سوال

خاوند اور بيوى كے ليے كونسے حالات ايسے ہيں جن ميں اجازت لينے كا خيال ركھنا ہوگا، كہ اس وقت گھر ميں محرم يا غير محرم شخص آ سكتا ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ازدواجى گھر ايك بہت ہى شرف و تكريم والا گھر ہے اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى دونوں كو ہى اس گھر كى حفاظت كا حكم ديا ہے، اور خاص كر بيوى كو اللہ سبحانہ وتعالى نے اس گھر كى امانت كى حفاظت كا حكم ديا ہے كيونكہ وہ گھر كى مالكن اور اولاد كى تربيت كرنے والى ہے.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:

" تم عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوى اختيار كرو كيونكہ تم نے انہيں اللہ كى امان سے حاصل كيا ہے، اور ان كى شرمگاہوں كو اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، اور تمہارا ان پر يہ حق ہے كہ تمہارے گھر ميں وہ شخص داخل نہ ہو جسے تم ناپسند كرتے ہو، اور اگر وہ ايسا كريں تو تم انہيں ہلكى سى مار كى سزا دو، اور تم پر ان عورتوں كا نان و نفقہ اور ان كے لباس كا اچھے طريقہ سے حق ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).

گھر ميں اجازت كے مسئلہ كى تفصيل درج ذيل ہے:

اول:

اگر خاوند بيوى كو اس كے رشتہ داروں ميں سے كسى معين محرم شخص كو اپنے گھر ميں آنے كى صريح اجازت ديتا ہے، يا كسى عورت كو يا پھر خاوند نے عام اجازت دى ہو تو اس صورت ميں علماء كے متفقہ فيصلہ كے مطابق بيوى كو انہيں اپنے گھر آنے كى اجازت دينى جائز ہے.

دوم:

اگر خاوند اجازت دينے كى بجائے خاموشى اختيار كرے تو پھر بيوى ظن غالب پر عمل كرتى ہوئى اس شخص كو گھر ميں آنے كى اجازت دےگى جس كے بارہ ميں بيوى كا ظن غالب ہو كہ خاوند اس كے آنے ميں اعتراض نہيں ہوگا اسے گھر ميں آنے كى اجازت دے سكتى ہے.

ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ان لوگوں ميں شامل ہوتا ہو جس كا گھر ميں خاوند كى غير موجودگى ميں بھى آنا جائز ہو يعنى وہ محرم ہو يا پھر عورت، ليكن اگر بيوى كے ظن غالب ميں ہو كہ خاوند كسى معين شخص كے گھر آنے كو ناپسند كرتا ہے تو بيوى كے ليے خاوند كى غير موجودگى ميں اس شخص كو گھر آنے كى اجازت نہيں دينى چاہيے، اس پر سب اہل علم متفق ہيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 125 ) ميں درج ہے:

" خاوند كا اپنى بيوى پر حقوق ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ خاوند كے گھر ميں خاوند كى اجازت كے بغير كسى شخص كو داخل ہونے كى اجازت نہ دے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كسى بھى عورت كے ليے خاوند كى موجودگى ميں خاوند كى اجازت كے بغير روزہ ركھنا جائز نہيں، اور وہ خاوند كے گھر ميں خاوند كى اجازت كے بغير كسى كو آنے كى اجازت نہ دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4899 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1026 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووى رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے كہ:

" اس حديث ميں يہ اشارہ كيا گيا ہے كہ بيوى خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر ميں كسى كو آنے نہيں دےگى اور يہ اس پر محمول ہے كہ جب بيوى كو خاوند كى رضامندى كا علم نہ ہو، ليكن اگر خاوند كى رضامندى كا علم ہو جائے تو پھر كوئى حرج نہيں، مثلا ايسا شخص جس كى عادت ہو كہ وہ مہمان مہمان خانے ميں لاتا ہو، چاہے خاوند غائب ہو يا گھر ميں موجود ہو تو پھر اس كے ليے خاص اجازت كى ضرورت نہيں.

حاصل يہ ہوا كہ خاوند كى اجازت كى تفصيل يا اجمال كا اعتبار ضرورى ہے.

سوم:

جب خاوند كسى معين شخص كو گھر ميں داخل كرنے كى صريحا كراہت كر دے، يا پھر اس كى غير موجودگى ميںكسى كے بھى گھر آنے كو ناپسند كرتا ہو، تو بيوى كے ليے خاوند كے گھر ميں اسے گھر ميں آنے كى اجازت دينا حرام ہے.

ليكن كيا خاوند حق حاصل ہے وہ بيوى كو اپنے والدين يا كسى اور محرم شخص كو ملنے كے ليے گھر آنے سے روك دے ؟

اس ميں اہل علم كے دو قول پائے جاتے ہيں: ايك قول جواز كا اور دوسرا منع كا ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" احناف كا صحيح مسلك يہى ہے كہ بيوى كے والدين ہر جمعہ كے دن اپنى بچى كو ملنے آ سكتے ہيں، خاوند اپنى بيوى كو اس سے روك نہيں سكتا، اور اسى طرح سال ميں ايك بار محرم شخص اس كى بيوى سے مل سكتا ہے خاوند كے ليے روكنا جائز نہيں، مالكيہ كا بھى يہى مسلك ہے.

اور اسى طرح اگر بيوى كى اسخاوند كے علاوہ دوسرے سے اولاد ہو اور وہ چھوٹے بچے ہوں تو خاوند انہيں روزانہ ايك بار ماں سے ملنے كے ليے آنے سے نہيں روك سكتا، اور اگر عورت كے والدين نے خاوند پر بيوى كو خراب كرنے كا الزام لگايا تو پھر ان كا خاوند كى خاندان سے كسى امين عورت كے ساتھ آنے كا فيصلہ كيا جائيگا، اور اس كى اجرت خاوند پر ہوگى.

شافعى حضرات كہتے ہيں كہ خاوند كو روكنے كا حق حاصل ہے، كيوكہ گھر اس كى ملكيت ہے، اور اپنے ملكيتى گھر ميں اسے روكنے كا حق حاصل ہے، احناف كا قول بھى يہى ہے.

اور حنابلہ كہتے ہيں كہ: خاوند اپنى بيوى كے والد كو بچى سے ملنے سے نہيں روك سكتا، كيونكہ اسے روكنے ميں قطع رحمى ہوتى ہے، ليكن اگر اسے قرائن سے علم ہو كہ بيوى كے والدين كے آنے كى بنا پر كوئى ضرر اور نقصان ہوتا ہے تو وہ روك سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 82 ).

ان اقوال ميں راجح يہى ہے كہ بيوى كے والدين اور محرم شخص كو خاوند نہيں روك سكتا، كيونكہ ايسا كرنے سے قطع رحمى لازم آتى ہے، اور ہر حال ميں قطع رحمى كرنا حرام ہے، اس ليے حرام كام كى كوشش كرنا جائز نہيں.

بلكہ اسے تو دونوں كے مابين اصلاح كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور صلہ رحمى كرے، يہ سب كو معلوم ہے كہ بيوى كے رشتہ داروں كى عزت و تكريم كرنا بيوى كے ساتھ حسن سلوك اور حسن صبحت كہلاتى ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے اچھا اور بہتر ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) امام ترمذى نے اس حديث كو حسن غريب صحيح كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے الصحيحۃ ( 1174 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر بيوى كے كسى رشتہ دار ميں كوئى شك و شبہ يا پھرظن غالب ہو كہ ان ميں سے كوئى ايك يا پھر اس عورت كے والدين خاوند اور بيوى كے مابين فساد كرانا چاہيں تو پھر اس وقت خرابى اور فساد كو دور كرنے كے ليے خاوند انہيں روك سكتا ہے، اور اس كا اس پر كوئى گناہ نہيں ہے.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب