الحمد للہ.
اول:
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے اور آپ كى اصلاح فرمائے، اور آپ كے دين كى حفاظت فرمائے.
آپ نے اپنے خاوند سے دور ہو كر غلطى كى اور اپنے آپ كو فتنے و خرابى اور فساد ميں ڈالا ہے، اور خاوند نے آپ كو اخراجات كى رقم ادا نہ كر كے ملازمت كرنے سے روك كر غلطى كا ارتكاب كيا ہے.
دوم:
اگر آپ كے خاوند نے آپ كو دو طلاقيں ديں اور پھر دوسرى شادى كرنے سے قبل آپ كى عدت ختم ہو چكى تھى تو آپ پر كوئى گناہ و حرج نہيں، اس صورت ميں آپ كى دوسرى شادى صحيح ہے.
حيض والى عورت كى عدت تين حيض ہيں، جب آپ كو خاوند نے طہر كى حالت ميں طلاق دى اور پھر آپ كو تين حيض آ گئے اور تيسرے حيض سے پاك ہو كر غسل كرنے سے آپ كى عدت ختم ہو جائيگى.
صغر سنى يا حيض سے نااميدى كى بنا پر جس عورت كو حيض نہيں آتا اس كى عدت تين ماہ ہے.
اور حاملہ عورت كى عدت وضع حمل ہوگى، جيسے ہى حمل وضع ہوا عدت ختم ہو جائيگى.
اور اگر طلاق عورت كى جانب سے معاوضہ دے كر حاصل كى گئى ہو تو يہ خلع كہلاتا ہے، راجح قول كے مطابق اس ميں ايك حيض عدت ہوگى.
اور اگر دوسرا عقد نكاح آپ كى عدت ختم ہونے كے بعد ہوا تو يہ شادى صحيح ہے، اور آپ پر كوئى گناہ نہيں، آپ پہلے خاوند كے پاس اسى وقت جا سكتى ہيں جب آپ كو دوسرا خاوند طلاق دے دے اور آپ كى عدت ختم ہو تو پہلا خاوند آپ سے نكاح كرے.
ليكن اگر آپ كى دوسرى شادى عدت ختم ہونے سے قبل تھى تو يہ شادى باطل ہے صحيح نہيں، اس طرح آپ نے ايك بہت ہى برا اور غلط عمل كيا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رہے باطل نكاح تو يہ اس طرح ہے كہ كوئى شادى شدہ عورت دوران نكاح ہى دوسرى شادى كر لے، يا دوران عدت يا پھر اس كے مشابہ، جب دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو حلال اور حرام كا علم ہو جائے تو وہ زانى ہيں، اور انہيں حد لگائى جائيگى، اور اس ميں نسب بھى ثابت نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 10 ).
اور ايك مقام پر درج ہے:
" جب عدت والى عورت شادى كر لے اور دونوں كو عدت كا علم بھى ہو، اور وہ جانتے ہوں كہ عدت ميں نكاح كرنا حرام ہے، اور خاوند نے اس سے وطئ بھى كر لى تو وہ دونوں زانى ہيں انہيں زنا كى حد لگائى جائيگى، اور اسے مہر نہيں ملےگا اور نہ ہى نسب كا الحاق ہوگا.
اور اگر انہيں عدت كا علم نہ ہو، يا عدت ميں نكاح كى حرمت سے جاہل ہوں تو نسب ثابت ہوگا، اور حد نہيں لگائى جائيگى، اور مہر دينا بھى واجب ہوگا.
اور اگر عورت كو علم نہيں ليكن مرد كو علم ہو تو مرد پر حد لگےگى اور مہر دينا ہوگا، اور مرد كو نسب حاصل نہيں ہوگا.
ليكن اگر عورت كو علم ہو اور مرد جاہل ہو تو پھر عورت پر حد لگےگى اور اسے مہر نہيں ملےگا، اور مرد كى طرف بچے كى نسبت بھى ہوگى.
يہ اس ليے تھا كہ اس نكاح كے باطل ہونے پر متفق ہيں، اس ليے يہ محرم عورتوں سے نكاح كے مشابہ ہوا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 103 ).
اس وقت دوسرا نكاح فسخ ہو جائيگا كيونكہ يہ باطل تھا اور آپ كو پہلے كى عدت مكمل كرنا ہوگى، اور پھر اس كے بعد دوسرے كى عدت بھى.
پھر سوال يہ ہے كہ: آيا آپ اپنے پہلے خاوند كے پاس جا سكتى ہيں يا نہيں ؟
اگر تو آپ كے پہلے خاوند نے عدت ميں رجوع كر ليا تھا چاہے آپ كو رجوع كا علم نہ بھى ہو، يا اس كى عدت مكمل كرتے ہوئے وہ رجوع كر لے تو آپ اس كى بيوى ہيں.
اور اگر بغير رجوع كيے آپ كى عدت ختم ہو جائے تو وہ آپ كے ليے اجنبى بن جائيگا، اور آپ نئے نكاح كے بغير اس كے پاس نہيں جا سكتيں، اس صورت ميں آپ كو اختيار ہے كہ آيا آپ اسى سے دوبارہ نكاح كر ليں يا دوسرے سے يا ان دونوں كے علاوہ كسى اور شخص سے.
مقصد يہ ہے كہ دوران عدت دوسرے شخص سے شادى باطل ہے، چاہے آپ كے پہلے خاوند نے دوران عدت رجوع كيا يا نہيں كيا، اور آپ عقد جديد كے ساتھ اس كى بيوى بنيں يا نہ بنيں دونوں حالتوں ميں دوران عدت دوسرے شخص سے شادى باطل ہوگى.
واللہ اعلم.