الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالی نے دعا کے ذریعے اپنی بندگی کرنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِي فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ)
ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہوں، دعا مانگنے والا جب بھی مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ، لہذا وہ میری بات مانیں اور مجھ پر مکمل اعتماد کریں، تا کہ انہیں رہنمائی ملے۔[البقرة:186]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ )
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔[غافر:60]
اور انہی دعاؤں میں اللہ تعالی سے مریض کیلیے شفا یابی کی دعا کرنا بھی شامل ہے، کہ اللہ تعالی اسے بیماری سے نجات عطا فرمائے یا بیماری کی شدت میں کمی پیدا فرما دے، چنانچہ مریض کو نیک مسلمان بھائیوں کی دعاؤں کا فائدہ بھی ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ مریض کیلیے دعا فرمایا کرتے تھے، چنانچہ سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت فرمائی تو : (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سعد کی پیشانی پر رکھا اور پھر اپنا ہاتھ میرے چہرے اور پیٹ پر پھیرا، اور پھر فرمایا: "اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا ، وَأَتْمِمْ لَهُ هِجْرَتَهُ "[یا اللہ! سعد کو شفا یاب فرما، اور ان کی ہجرت مکمل فرما] مجھے آج اس وقت بھی اپنے کلیجے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہو رہی ہے)
بخاری (5659) مسلم (1628 )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو مریض کیلیے دعا کرنے کے الفاظ سکھلائے ہیں، ان میں یہ بھی ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص کسی ایسے مریض کی عیادت کرے جو قریب المرگ نہیں ہے، اور پھر اس کے پاس سات بار کہے: " أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ "[عرش عظیم کے مالک صاحب عظمت اللہ سے میں سوال کرتا ہوں کہ وہ تمہیں شفا یاب فرمائے] تو اللہ تعالی اسے اس بیماری سے ضرور شفا یاب فرماتا ہے)
ابو داود (3106) البانی نے اسے " صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عیادت کرنے والے کے لئے مستحب ہے مریض کی زندگی و حیات کی طلب کیلیے دعا کرے چاہے مریض کے بچنے کی امید ہو یا نہ ہو، مریض کیلیے دعا کرنے سے متعلق متعدد صحیح احادیث منقول ہیں، جن کو میں نے "الاذکار" کتاب میں جمع کر دیا ہے۔" اس کے بعد انہوں نے کچھ احادیث ذکر بھی کیں۔
اختصار کے ساتھ ماخوذ از: " المجموع " (5/112)
مریض کیلیے دعا کرنے والا کوئی اکیلا شخص ہو یا اجتماعی طور پر دعا کی جائے [احادیث میں وارد شدہ دعائیں کی جا سکتی ہیں] تاہم اگر گروپ کی شکل میں لوگ مریض کی عیادت کریں اور ان میں سے ایک شخص دعا کرے ، بقیہ اس پر آمین کہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خاص طور پر اگر عیادت کرنے والوں میں ایسا شخص ہو جسے دعا کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔
دوم:
نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا شرعی عمل نہیں ہے؛ کیونکہ عبادات دلیل کے بغیر کرنا درست نہیں ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت صحابہ کرام سے بھی اس طرح دعا کرنا ثابت نہیں ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے ایسے امام کے بارے میں پوچھا گیا جو فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرواتا ہے اور مقتدی بھی اسی طرح دعا کرتے ہیں، اس میں امام دعا مانگتا ہے اور مقتدی اس کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"عبادات کی بنیاد دلیل پر ہوتی ہے، اس لیے دلیل کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عبادت اصل ، تعداد یا کیفیت ، یا جگہ کے اعتبار سے شرعی عمل ہے، کیونکہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی ، فعلی یا تقریری ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جس میں اس کا جواز ملتا ہو" انتہی
"مجلة البحوث الإسلامية" (17/55)
لیکن اگر مریض کیلیے کبھی کبھار دعا کر دی جائے کہ امام دعا کرے اور حاضرین اس پر آمین کہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کیلیے ایسے بھی کیا جا سکتا ہے کہ امام مقتدیوں کو بتلا دے کہ فلاں شخص بیمار ہے اس کیلیے دعا کریں ، امام صاحب مقتدیوں کو دعا اور عیادت دونوں کاموں کیلیے ترغیب دلائیں، تو اس طرح مریض کیلیے دعا بھی ہو جائے گی اور ان کی عیادت بھی۔
واللہ اعلم.