جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حصولِ رزق، فراوانی اور قرضوں کے ادائیگی کے لیے دعائیں

سوال

امریکہ میں ملکی اقتصادی حالات بہت زیادہ دگر گوں کا شکار ہیں جس کی وجہ سے میرے والد صاحب کی ملازمت بھی خطرے کا شکار ہو سکتی ہے؛ کیونکہ میرے والد کو انہوں نے انتباہی نوٹس دے دیا ہے، ہمارے پورے گھر کے وہی ایک کمانے والے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ اپنے والد کے لیے کوئی دعا کروں جس سے ہمارے گھر کے مالی حالات اچھے ہو جائیں، اس لیے انٹرنیٹ پر میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک دعا ملی، لیکن مجھے اس کے صحیح ہونے میں شک ہے؛ کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی مجلس میں بیٹھ کر 12000 بار اسے پڑھنا ہے تو آپ میری اس حوالے سے مدد کریں، اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے لیے آسانیاں فرمائے، آپ کے والد کی مدد فرمائے، اور آپ سب کو حلال بابرکت رزق عطا فرمائے۔

صحیح احادیث میں مشکل کشائی، حاجت روائی ، قرضوں کی ادائیگی اور مالی فراوانی کے لیے دعائیں ثابت ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1-مسند احمد: (3712) میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کسی کو بھی کوئی پریشانی اور غم لاحق ہو اور وہ کہے:
اَللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي ، وَنُورَ صَدْرِي ، وَجِلَاءَ حُزْنِي ، وَذَهَابَ هَمِّي
ترجمہ: یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، اور تیری باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ مبنی بر عدل ہے، میں تیرے ہر نام کے واسطے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں جو تو نے خود اپنے لیے رکھا ہے، یا اپنی مخلوقات میں سے کسی کو تو نے سکھایا ہے، یا تو نے اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اسے اپنے ہاں علم غیب میں محفوظ رکھا ہوا ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور بنا دے، میرے غم کے چھٹنے اور میری پریشانی ختم کرنے کا ذریعہ بنا دے۔
تو اللہ تعالی اس کی پریشانی اور غم کو ختم کر دے گا، بلکہ اس کی جگہ کشادگی بھی بنا دے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم یہ دعا سیکھ نہ لیں؟! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیوں نہیں، بلکہ جو بھی یہ دعا سنے تو اسے یہ دعا یاد کر لینی چاہیے۔)
اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح الترغیب و الترھیب: (1822) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

2-صحیح مسلم: (2713) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ہمیں سوتے وقت یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے کہ: اَللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ دَابَّةٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا اللَّهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِ 
ترجمہ: اے اللہ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے رب اور ہر چیز کے رب، دانے اور گٹھلیوں کو چیر (کر پودے اور درخت اگا) دینے والے! تورات، انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے! میں ہر اس رینگنے والی چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضے میں ہے، اے اللہ! تو ہی اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں، اے اللہ! تو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی شے نہیں ہے، تو ہی غالب ہے تیرے سے اوپر کوئی شے نہیں ہے، تو ہی باطن ہے، تجھ سے زیادہ خفیہ کوئی شے نہیں ہے، ہماری طرف سے (ہمارا) قرض ادا کر اور ہمیں غربت میں فراوانی عطا فرما۔

3-سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مکاتب غلام نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرمادیجئے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تجھ پر "صِیر" پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: اَللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ ترجمہ: یا اللہ! مجھے تیری حلال کردہ روزی کے ذریعے تیرے حرام کردہ ذرائع آمدن سے کافی ہو جا، اور مجھے اپنے فضل کے ذریعے اپنے علاوہ ہر کسی سے مستغنی کر دے۔ اسے ترمذی : (3563) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

4-طبرانی نے معجم صغیر میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ نہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی دعا نہ سکھاؤں جسے تم پڑھو تو اگر احد پہاڑ کے برابر بھی تم پر قرض ہوا تو اللہ تعالی اسے ادا کر دے گا، معاذ تم کہو: اَللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ، وتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ، وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ، وتُذِلُّ مَنْ تَشاءُ، بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. رَحْمنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيْمَهُمَا، تُعْطِيْهِمَا مَنْ تَشَاءُ، وَتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، اِرْحَمْنِيْ رَحْمَةً تُغْنِيْنِيْ بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ 
ترجمہ: یا اللہ! بادشاہت کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی دے دے، اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔ تو جسے چاہے معزز کر دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے، خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔ اے دنیا اور آخرت کے رحمن و رحیم! تو جسے چاہے دونوں عطا کر دے، اور جس سے چاہے دونوں کو روک لے۔ مجھ پر ایسی رحمت فرما جس کے ذریعے تو مجھے اپنے علاوہ ہر کسی سے مستغنی کر دے۔
اس حدیث کو البانی نے صحیح الترغیب و الترھیب (1821)میں حسن قرار دیا ہے۔

5-حصول رزق کے لیے مفید اور نافع وسیلہ کثرت سے استغفار بھی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَاراً وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَاراً
 ترجمہ: تو میں [نوح] نے کہا: تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو؛ یقیناً وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمانوں سے موسلا دھار بارش برسائے گا، اور تمہاری دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے امداد کرے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں بنا دے گا۔ [نوح: 10 - 12]

دوم:

کسی بھی دعا کے لیے کوئی عدد مخصوص کرنا تو یہ بدعات اور خود ساختہ طریقوں سے تعلق رکھتا ہے۔

جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے:
"اذکار اور عبادات بنیادی طور پر توقیفی ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کی عبادت اسی طریقے سے کی جائے گی جو اللہ تعالی نے بتلایا ہے۔ عبادت کو مطلق، یا موقت رکھنا عبادت کی کیفیت اور تعداد وغیرہ وہی ہوں گے جو اللہ تعالی نے مقرر فرمائے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالی نے جو عبادات وقت، تعداد، جگہ یا کیفیت کے اعتبار سے مطلق رکھی ہیں ہمیں ان میں یہ اجازت نہیں ہے کہ انہیں ادا کرتے ہوئے کسی مخصوص کیفیت، وقت یا تعداد کے ساتھ خاص کر دیں؛ بلکہ ہم اس عبادت کو اسی طرح مطلق ہی رکھیں گے جیسے شریعت نے اسے مطلق رکھا ہے، اور جو عبادات قولی، یا عملی دلائل کے ذریعے ثابت ہو کہ وہ کسی وقت، تعداد، یا جگہ یا کیفیت کے ساتھ خاص ہیں تو ہم بھی اسے اسی طرح خاص ہی رکھیں گے جیسے کہ شریعت میں ثابت ہے۔
شیخ عبد العزیز بن باز ، الشیخ عبد الرزاق عفیفی ، الشیخ عبد الله بن غدیان ، الشیخ عبد الله بن قعود " ختم شد
"مجلة البحوث الإسلامية" (21/53) ، و " فتاوى إسلامية " (4/178)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب