اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

منگنى و نكاح كے وقت پيسے اور ہديہ و تحفہ جات ديے اور مہر مؤجل بھى لكھا كر ديا ليكن رخصتى سے قبل ہى طلاق دے تو اس كے ليے كيا ہے ؟

175314

تاریخ اشاعت : 23-10-2012

مشاہدات : 3774

سوال

ميں نے اپنى خالہ كى بيٹى سے نكاح كيا ليكن رخصتى سے قبل ہى كئى ايك اسباب كى بنا پر طلاق دے دى، ميں نے پچاس ہزار مہر دينے كا اتفاق كيا تھا، اور تيسر ہزار منگنى كى انگوٹھى وغيرہ اور پچاس ہزار مہر مؤجل تھا، اس كے بعد بيوى كہنے لگى كہ تم مہر مؤجل پچاس ہزار كى بجائے ايك لاكھ كر دو كيونكہ ميرى پھوپھى كى بيٹى كا مہر مؤجل بھى ايك لاكھ ہے، فعلا ميں نے عقد نكاح ميں تيس ہزار لكھا اور باقى ستر ہزار كر دينے كا لكھ كر دستخط كر ديے؛ اب مجھے بتايا جائے كہ اس كا شرعى حق كيا ہے ؟
ميں نے بيوى كو پچاس ہزار مہر معجل اور تيس ہزار منگنى وغيرہ كے ديے ہيں، اور يہ سارى بيوى كے پاس ہے اس كے علاوہ بہت سارے تحفے تحائف بھى.
مہر مؤجل پچاس ہزار جس پر اتفاق ہوا تھا اور اس كے بعد اسے زائد كر كے اس كى پھوپھى كى بيٹى جتنا كر ديا گيا اور ميں نے يہ بھى اتفاق كيا تھا كہ اسے ايك فليٹ بھى ہديہ دونگا، يہ علم ميں رہے كہ فليٹ كى قسطيں ميں ابھى تك ادا كر رہا ہوں، اور دو برس بعد فليٹ ميرى ملكيت ميں آ جائيگا كيا اگر ہديہ شادى يا عدم شادى كے ساتھ مشروط تھا تو كيا يہ اس كا حق ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ فليٹ نہ تو ابھى ميرے قبضہ ميں ہے اور نہ ہى بيوى كے قبضہ ميں؛ كيونكہ مجھے فليٹ دو برس بعد ملنا ہے، برائے مہربانى اس كى معلومات فراہم كر كے عند اللہ ماجور ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلى بات تو يہ ہے كہ اگر كوئى شخص اپنى بيوى كو رخصتى و دخول سے قبل طلاق دے اور اس كا مہر مقرر كر چكا ہو تو مقررہ مہر كا نصف بيوى كو ديا جائيگا:

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم انہيں چھونے ( دخول و رخصتى ) سے پہلے طلاق دے دو اور تم ان كا مہر مقرر كر چكے ہو تو مقررہ مہر كا نصف انہيں ديا جائيگا، الا يہ كہ وہ عورتيں اسے معاف كر ديں، يا پھر وہ جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے وہ معاف كر دے، اور تم معاف كر دو تو يہ تقوى كے زيادہ قريب ہے، اور تم آپس ميں احسان كرنا نہ بھولو، اور بے شك اللہ اس كو جو تم كر رہے خوب ديكھنے والا ہے البقرۃ ( 237 ).

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ اگر كوئى شخص مہر مقرر كرنے كے بعد كسى عورت كو دخول و رخصتى سے قبل طلاق دے تو مقررہ مہر كا نصف دينا واجب ہوگا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم انہيں ہاتھ لگانے سے قبل طلاق دو اور تم ان كا مہر مقرر كر چكے ہو تو پھر تم نے جو مقرر كيا ہے اس كا نصف ( لازم ) ہے .

اس باب ميں يہ آيت نص صريح ہے، اس ليے اس پر عمل كرنا واجب ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 39 / 177 ).

آپ نے جو نقدى اور انگوٹھى وغيرہ دى وہ سب مہر ہے اس ليے بيوى پر لازم ہے كہ اس كا نصف آپ كو واپس كرے، اور آپ پر مہر مؤجل كا نصف اسے دينا لازم ہے، اس طرح وہ آپ كو پچيس ہزار اور منگنى پر ديے گئے نصف واپس كريگى، اور آپ اسے پچاس ہزار ديں كيونكہ مہر مؤجل بڑھا كر ايك لاكھ كر ديا گيا تھا.

دوسرى بات:

مہر كے علاوہ باقى مانندہ تحفے اور ہديے وغيرہ كے بارہ ميں گزارش ہے كہ: اگر تو طلاق بيوى كے مطالبہ پر ہوئى ہے تو پھر آپ يہ تحفے وغيرہ واپس دينے كا مطالبہ كر سكتے ہيں، كيونكہ يہ تحفے ايك مقصد يعنى شادى كى غرض سے ديے گئے تھے، اور اب يہ مقصد ہى فوت ہوگيا تو اس طرح انہيں واپس لينا جائز ہوا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ منصوص شرعى اصول كے موافق مذہب پر جارى ہے وہ يہ جسے بھى كسى سبب كى بنا پر كوئى ہديہ ديا گيا يا كوئى چيز ہبہ كى گئى تو يہ سبب كے ثبوت سے ثابت ہوگى اور سبب زائل ہونے زائل ہو جائيگا، اور سبب كے حرام ہونے سے حرام ہوگا، اور اس كے حلال ہونے سے حلال ہوگا...

مثلا اگر اگر عقد نكاح سے قبل ہديہ ديا گيا اور انہوں نے اس سے نكاح كرنے كا وعدہ كر ليا تھا ليكن شادى كسى دوسرے كے ساتھ كر دى تو وہ ہديہ واپس لےگا، اور پيشگى دى گئى نقدى كو مہر ميں شمار كيا جائيگا، چاہے مہر ميں نہ بھى لكھا گيا ہو، جب وہاں يہ عادت ہو، يعنى جب ان ميں رواج ہو كہ يہ مہر ميں شامل ہوتى ہے " انتہى

ماخوذ از: الفتاوى الكبرى ( 5 / 472 ).

رہا فليٹ تو وہ آپ واپس لے سكتے ہيں، چاہے آپ نے طلاق دى ہو يا بيوى نے طلب كى ہو، كيونكہ يہ ايسا ہبہ ہے جو ابھى قبضہ ميں ہى نہيں گيا، اور قبضہ ميں جانے سے قبل اسے واپس لينا جائز ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" جمہور علماء كے ہاں قبضہ ميں جانے سے قبل ہبہ واپس لينا جائز ہے، لہذا جب قبضہ ميں چلا جائے تو شافعيہ اور حنابلہ كے ہاں واپس نہيں ليا جا سكتا، ليكن والد اپنے بيٹے كو ہبہ كردہ واپس لے سكتا ہے، اور احناف كے ہاں اگر اجنبى كے ليے ہو تو وہ واپس لے سكتا ہے.

اور مالكيہ كے ہاں نہ تو قبضہ سے پہلے واپس لينا جائز ہے اور نہ ہى قبضہ كے بعد واپس ليا جا سكتا ہے، ليكن والد اپنے بيٹے كو ہبہ كردہ واپس لے سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 164 ).

اور اگر آپ بيوى كو ديے گئے چھوٹے چھوٹے ہديے اور تحفے چھوڑ ديں اور فليٹ لے ليں تو يہ بہتر ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے، اور آپ دونوں كو اپنى وسعت سے غنى فرما دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب