الحمد للہ.
ہم نے پہلے سوال نمبر: (160470) میں ذکر کیا ہے کہ کسی بھی عیسائی کو کلیسا تک پہنچانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح گناہ کے کام پر تعاون لازم آئے گا، بلکہ گناہ عظیم لازم ہوگا؛ اس لیے کہ وہاں پر اللہ کی اولاد کا دعوی کر کے صریح شرک کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اس مسئلے میں اور کسی عیسائی کو ان کی کسی بھی مذہبی تقریب کے موقع پر کلیسا کا راستہ بتانے اور تشہیر میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ اس کام میں گناہ زیادہ ہوگا؛ کیونکہ اس کام کی وجہ سے ان کی مذہبی اور باطل تقریبات منعقد کرنے کیلئے اعانت بھی لازم آئے گی، اس طرح ان لوگوں کو دہرا گناہ ملے گا، ایک تو کلیسا جانے کا ، اور دوسرا عیسائیوں کے مذہبی تہوار میں شرکت کرنے کا۔
ہم نے پہلے سوال نمبر: (69558) اور (50074) کے جوابات میں متعدد اہل علم سے یہ نقل کیا ہے کہ عیسائیوں کی مذہبی تقریبات منانے کیلئے ان کا تعاون کرنا حرام ہے، اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ کرسمس تقریبات کے ضمن میں منعقد کی جانے والی سرگرمیاں کرسمس تہوار کے لوازمات میں سے ہیں
اس لیے عیسائیوں کی مذہبی تقریبات کی تشہیری مہم میں حصہ لینے والے ، اور لوگوں کو ان تقریبات کے مقامات کی طرف رہنمائی کرنے والے خطرناک جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، اور اپنے اس اقدام سے سنگین گناہ میں ملوّث ہو رہے ہیں۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"کفار کے تہواروں میں ان کیساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنا تمام مسلمانوں کیلئے حرام ہے، اس میں اشتہارات، اور اعلانات، کسی بھی ذریعے سے ان تہواروں میں شرکت کی دعوت دینا بھی شامل ہے، چاہے یہ دعوت دینے کیلئے کوئی بھی راستہ اپنایا جائے"
شیخ عبد العزیز آل شیخ، شیخ عبد اللہ غدیان، شیخ صالح فوزان، شیخ بکر ابو زید
ماخوذ از: " فتاوى اللجنة الدائمة " ( 26 / 409 )
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عیسائیوں کے ہاں کرسمس تہوار کا مطلب عیسی علیہ السلام کی انسانی ولادت کا جشن ہے؟!
اس کا جواب : نہیں میں ہوگا، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں کرسمس تہوار کا مطلب -نعوذ باللہ-خدا یا خدا کے بیٹے کی ولادت کا تہوار ہے، تو اس صورت میں کوئی مسلمان ان کی کرسمس تقریبات میں یہ گمان کرتے ہوئے شرکت کر سکتا ہے کہ یہ نبی کی ولادت کا جشن ہے؟ حالانکہ جشن منانے والوں کا نظریہ ہے کہ یہ جشن خدا یا خدا کے بیٹے کی ولادت کا ہے!!
مذکورہ تمام باتوں کے با وجود ان کے اس اقدام کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ ملت اسلامیہ سے ہی خارج ہیں، کیونکہ یہ اقدامات کرنے والا شخص عیسائیوں کے اس عمل کو درست نہیں سمجھتا، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا شخص اپنے ان اقدامات کی وجہ سے کفر اکبر کا مرتکب نہیں ٹھہرتا، لہذا ہم یہی کہیں گے کہ آپ انہیں سمجھائیں، اور ان اقدامات سے باز آنے کیلئے نصیحت کرتے رہیں۔
اور آپکو اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ عمل کفریہ ہے یا نہیں، یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ انہیں یہ بتلائیں کہ ان کا عمل حرام ہے، اور کوشش کرتے رہیں امید ہے کہ وہ ان کاموں سے باز آ جائیں گے۔
واللہ اعلم.