جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

ہم دین اسلام کی عمر ابتدائے ہجرت سے کیوں شمار کرتے ہیں، ابتدائے وحی اور دعوت سے کیوں نہیں کرتے؟

سوال

سوال پہنچے تو آپ خیر و عافیت سے ہوں گے، میرا سوال یہ ہے کہ جب بھی کوئی غیر مسلم ابتدائے نبوت سے اسلام کی عمر پوچھتا ہے تو ہم بطورِ مسلمان اسے ہجرت کے بعد والے سال ہی بتلاتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ ہم نبوت کے ہجرت سے پہلے والے سال کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ ہجرت والا سال بھی بہت ہی عظیم سال ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوت ہجرت سے 13 سال پہلے شروع ہوئی تھی؛ اس لیے ہم اسلام کی عمر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہجرت سے 1433 سال ہو گئے ہیں، لیکن ہم ہجرت سے پہلے والے 13 سال کے اضافے کے ساتھ نبوت سے 1446 سال شمار کیوں نہیں کرتے، میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان شاء اللہ معاملہ واضح کر دیں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ بات ٹھیک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے مکہ میں جو 13 سال گزارے ، جن میں آپ نے اللہ تعالی کی طرف لوگوں کو بلایا، تکالیف برداشت کیں، جاہلوں کی باتوں  پر صبر کیا، یہ بھی اسلامی تاریخ میں  شامل ہیں، بلکہ یہ اسلام  کی عمر کے بہت ہی اہم سال ہیں؛ ان ایام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا بھروسا  اور توکل بہت اہمیت کا حامل تھا، آپ نے اللہ کی راہ میں بہت تکلیفیں برداشت کیں۔

اس بات میں کوئی بھی عقلمند  شک نہیں کرتا، اور نہ ہی کوئی اس کا انکار کر سکتا ہے، چاہے کوئی مسلمان  ہو یا غیر مسلم کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے۔

لیکن وہ بنیادی اور مرکزی نقطہ جس کی وجہ سے لوگوں نے جنتری اور کیلنڈر وضع کرتے ہوئے یا کسی بھی واقعے کا سال ذکر کرتے ہوئے  ہجرت کو بنیاد بنایا ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام  عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس بات پر متفق ہو گئے کہ سالِ ہجرت کو اس کیلیے بنیاد بنایا جائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہجرت سے ہی اسلامی مملکت  کا قیام عمل میں آیا، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو لوگ آپ  کے اردگرد جمع ہو گئے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح سے حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی، آپ نے وہاں پر مسجد بنائی، اور دیگر امور سر انجام دیے، یعنی اسلامی مملکت کے جغرافیائی، سماجی، عسکر ی اور سیاسی آثار نظر آنا شروع ہو گئے، لیکن ہجرت سے پہلے مسلمانوں کا کوئی ملک نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس جامع نظامِ حکومت تھا۔

صحابہ کرام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں 16 یا 17 یا 18 ہجری میں اس بات پر متفق ہو گئے تھے  کہ اسلامی تاریخ کا آغاز ہجرت کے سال سے کیا جائے، اس کی وجہ یہ بنی کہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص نے دعوی دائر کیا اور اس کے آخر میں تھا کہ : "اس کی ادائیگی کا وقت شعبان ہے"
اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا:  اس شعبان سے مراد کون سا شعبان ہے؟ اس سال کا شعبان یا گزشتہ سال کا شعبان ؟ یا آئندہ سال کا شعبان؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے  صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان سے تاریخ مقرر کرنے کے بارے میں مشورہ لیا تا کہ قرضوں کی ادائیگی کا وقت جاننے سمیت دیگر امور میں مدد ملے ۔

تو کچھ نے مشورہ دیا کہ  فارسیوں کی تاریخ کو معتمد تاریخ بنا لیں، لیکن یہ مشورہ عمر رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں آیا۔
پھر کسی نے کہا کہ رومیوں کی تاریخ معتمد بنا لیں، لیکن آپ کو یہ بھی پسند نہیں آیا۔

کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے کا مشورہ بھی دیا، کسی نے بعثت تو کسی نے ہجرت کا  ذکر کیا جبکہ کچھ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات  سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے کا مشورہ دیا۔

تو عمر رضی اللہ عنہ کا میلان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کو معیار بنانے کی جانب تھا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت  کا سال مشہور و معروف بھی تھا  اور دیگر صحابہ کرام بھی اس پر متفق ہو گئے۔

مطلب یہ ہے کہ: صحابہ کرام نے اسلام سال کی ابتدا کیلیے ہجرت کے سال کا انتخاب کیا اور اس کا  پہلا مہینہ محرم قرار پایا، جمہور کا موقف بھی یہی ہے، اور لوگ اپنے معاملات بھی اسی تاریخ کی بنیاد پر طے کرتے ہیں"انتہی
"البداية والنهاية" (3 /251-253)

امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری (3934)میں بیان کرتے ہیں کہ : سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "اسلامی سال کی ابتدا صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے نہیں کی اور نہ ہی آپ کی وفات سے، بلکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد پر اسلامی سال کی بنیاد رکھی"

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ مؤلفین نے ہجرت کے سال سے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کرنے کی اچھی مناسبت پیش کی ہے: ان کا کہنا ہے کہ: جن امور کر بنیاد بنا کر اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کی جا سکتی تھی وہ چار تھے: آپ کی ولادت، آپ کی بعثت ، ہجرت اور وفات، تو صحابہ کرام کے ہاں ہجرت  سے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا زیادہ مقبول ہوئی؛ کیونکہ ولادت اور بعثت دونوں کے سال کی تعیین میں اختلاف ہو سکتا تھا، جبکہ وفات سے کنارہ کشی اس لیے اختیار کی کہ  اس کے ذکر سے افسردگی اور غم تازہ ہو جائے گا، تو پھر باقی صرف ایک ہی اختیار رہ گیا کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔
نیز ربیع الاول کی بجائے محرم سے اسلامی سال کی ابتدا اس لیے کی کہ ہجرت کرنے کا عزم محرم میں ہوا تھا؛ کیونکہ بیعت عقبہ ثانیہ ذو الحجہ میں ہوئی تھی اور یہی بیعت ہجرت کا پیش خیمہ بنی، چنانچہ بیعت اور ہجرت کا پختہ ارادہ کرنے کے بعد سب سے پہلا چاند جو طلوع ہوا وہ محرم کا تھا، اس لیے ماہِ محرم کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا، مجھے محرم سے ابتدا کرنے کی سب سے مضبوط اور اچھی توجیہ یہی ملی ہے۔

مستدرک حاکم میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ: "عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے تاریخ کے پہلے دن  کے متعلق استفسار کیا کہ کس دن سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائی، اس پر علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شرک سے کنارہ کشی اختیار کر کے ہجرت کی لہذا اسی  دن سے ابتدا ہو، تو یہ بات عمر رضی اللہ عنہ کو اچھی لگی اور اسی کو نافذ العمل قرار دے دیا گیا" انتہی

لہذا اسلام کی عمر ہجرت سے شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی سال کی تقویم اور جنتری  کی ابتدا ہجرت سے ہے، کہ لوگوں نے اپنے معاملات اور دیگر حالات و واقعات جاننے کیلیےایسا کیا تاکہ ایک جامع اور متفقہ نظام قائم ہو اور معاہدوں  کیلیے مقررہ اوقات جاننے میں آسانی رہے، کہیں وفد ارسال کرنے میں بھی وقت کی پابندی ہو۔

چنانچہ اس بات پر عمر رضی اللہ عنہ  کی خلافت میں سب کا اتفاق ہو گیا تھا اور آج تک وہ اتفاق قائم ہے۔

اس واقعہ ہجرت کو ابتدائے تاریخ مقرر کرنے سے مقصددولت اسلامی کے وجود اور جنم کی تاریخ  منضبط کرنا بھی تھا۔

جبکہ اسلام کب سے شروع ہوا ؟تو  یہ بات لوگوں میں بتلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہجری سال سے پہلے بھی اسلام موجود تھا؛ کیونکہ اسلام کا معنی اور مفہوم اس سے وسیع ہے؛ اس لیے کہ اسلام سے مراد وہ دین ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلیے پسند فرمایا، جس کیلیے اپنے رسولوں اور انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا، اور تاریخ بیان کرتے ہوئے ہماری یہ مراد ہوتی ہی نہیں ہے۔

نیز ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی اس بات کا تصور رکھے کہ اسلام کی حقیقی ابتدا ہجرت سے ہوئی ہےاور یہ سمجھے کہ مکہ میں ہجرت سے پہلے جتنے بھی سال گزارے ہیں انہیں اسلام کی عمر میں شامل ہی نہ کرے ، ایسی بات کوئی بھی نہیں کرتا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب