جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

تجارتی سامان کی زکاۃ رقم نہ ہونے کی وجہ سے مؤخر کرنے کا حکم، اور کیا زکاۃ ادا کرنے کے لیے قرض لینا لازم ہو گا؟

سوال

میری بک شاپ ہے، اور اس میں نصاب کی رقم سے زیادہ مال موجود ہے، لیکن میرے پاس زکاۃ ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے، اور سال بھی گزر چکا ہے، تو یہاں سوال یہ ہے کہ کیا میں مطلوبہ مقدار میں رقم جمع ہونے تک انتظار کروں؟ یا زکاۃ ادا کرنے کے لیے قرضہ اٹھا لوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سامان تجارت میں اس وقت زکاۃ واجب ہوتی ہے جب سامان تجارت ذاتی طور پر یا اس کے ساتھ ملائی جانے والی نقدی وغیرہ کے ملانے سے نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر چکا ہو۔

ایسے میں سال پورا ہونے پر سارے مال کی قیمت فروخت لگائی جائے گی چاہے وہ قیمت خریداری کی قیمت سے کم ہو یا زیادہ، اور پھر اس میں سے چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکاۃ ادا کی جائے گی۔

دوم:

جب مال کی مقدار نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال گزر چکا ہو تو اس کی فوری طور پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہے، بغیر کسی عذر کے زکاۃ کی ادائیگی کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔

جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب زکاۃ فرض ہو جائے تو فوری طور پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہو جاتا ہے، زکاۃ نکالنے کی مکمل اجازت دی جائے ، اسے مؤخر کرنا بالکل جائز نہیں۔ یہی موقف امام مالک، احمد اور جمہور علمائے کرام کا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان: { وَآتُوا الزَّكَاةَ} ہے، یعنی زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور حکم کی تعمیل فوری کرنا ضروری ہوتا ہے۔ " ختم شد
"شرح المهذب" (5/308)

 اسی طرح "کشاف القناع مع الإقناع " (2/255) میں ہے کہ:
"مال کی زکاۃ واجب ہونے کے بعد اس کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، خصوصی ایسی صورت میں جب ادا کرنا ممکن بھی ہو تو ایسی صورت میں فوری طور پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہے۔۔۔ البتہ اگر فوری طور پر زکاۃ دینے سے نقصان ہو تو تاخیر کی جا سکتی ہے، یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے؛ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ : (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچاؤ) ۔۔۔ یا پھر مالک کو ہی اپنی زکاۃ کی رقم کی ضرورت ہو کہ اگر زکاۃ کی رقم نکالی جائے تو معیشت اور ضروریات پر منفی اثر پڑتا ہو تو ایسی صورت میں زکاۃ اس وقت لی جائے گی جب اسے رکاوٹ دور ہونے کے بعد آسانی ہو ۔۔" ختم شد

مزید کے لیے آپ "المغنی" (2/510) کا مطالعہ کریں۔

سوم:
اگر آپ کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ آپ اپنی تجارت کی زکاۃ ادا کر سکیں تو آپ کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اسی سامان تجارت کو ہی بطور زکاۃ دے دیں جس پر زکاۃ واجب ہوئی ہے، کیونکہ سامان تجارت کی زکاۃ راجح موقف کے مطابق اسی سامان تجارت سے ادا کرنا جائز ہے۔

چنانچہ امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ایک آدمی کے سامان تجارت پر زکاۃ واجب ہوئی اس پر اس نے اپنی تجارت کے سامان کی قیمت لگائی، تو اس کی زکاۃ کی رقم مکمل ایک سوٹ، یا جانور یا غلام کی قیمت کے برابر ہو گئی تو یہ شخص اسی چیز کو اپنی زکاۃ کی مد میں دے دیتا ہے ، اس صورت میں وہ شخص ہمارے ہاں نیکی کرنے والا اور زکاۃ ادا کرنے والا ہو گا۔ اور اگر اس کے لیے آسانی اس بات میں تھی کہ اپنی زکاۃ کی رقم سونے یا چاندی کی شکل میں دے تو یہ بھی اس کے لیے جائز ہے۔ ہمارے نزدیک اموال تجارت کا یہی حکم ہے۔" ختم شد
"الأموال" از ابو عبید: (388) ، انہی سے حمید بن زنجویہ نے اپنی کتاب: "الأموال" (3/974) میں نقل کیا ہے۔

اور اگر مال تجارت ایسی نوعیت کا ہے کہ زکاۃ کے مستحق فقیر کے کام آنے والا نہیں تو پھر ان شاء اللہ آپ پر زکاۃ کی تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ آپ مال فروخت کر کے زکاۃ ادا کر دیں۔

لیکن اگر آپ کے پاس تھوڑی بہت مقدار میں رقم موجود ہے جس سے زکاۃ کا کچھ حصہ ادا ہو سکتا ہے تو آپ فوری طور پر وہ رقم زکاۃ کی مد میں دے دیں، اور بقیہ زکاۃ مزید رقم میسر آنے پر ادا کر دیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (47761 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب