اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایک شخص نے اپنی بیوی کو مسلسل پانچ مہینے تک چھوڑے رکھا۔

178188

تاریخ اشاعت : 03-12-2024

مشاہدات : 811

سوال

ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو اپنی بیوی کو مسلسل پانچ مہینے تک چھوڑے رکھے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کسی بھی خاوند کے لیے اپنی بیوی کو اتنی لمبی مدت تک چھوڑے رکھنا جائز نہیں ہے، الا کہ بیوی نافرمان ہو، اور خاوند کے حقوق پورے نہ کرے، تو ایسی صورت میں جب تک بیوی اپنی غلطی سے توبہ نہیں کر لیتی خاوند اسے چھوڑ سکتا ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاللاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
ترجمہ: اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقیناً اللہ بلند مرتبہ والا اور بڑی شان والا ہے ۔[النساء: 34]

اور اگر بیوی کے نافرمان ہونے کی صورت میں یہ علاج بھی کار گر نہ ہو تو خاوند اپنے خاندان سے ایک شخص کو ثالث مقرر کر لے اور بیوی اپنے خاندان سے ثالث مقرر کر لے تا کہ مسئلے کی جڑ تک پہنچ کر اس میں دونوں باہمی مشورے سے فیصلہ کر سکیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
ترجمہ: اور اگر تمہیں خاوند اور بیوی کے مابین جدائی کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے بھیجو اگر وہ [خاوند اور بیوی ] دونوں باہمی اصلاح کا ارادہ کریں تو یقیناً اللہ تعالی ہمیشہ سے جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ [النساء: 35]

اور اگر بیوی نافرمان نہ ہو تو بیوی کو چھوڑے رکھنا دو وجوہات کی بنا پر جائز نہیں ہے:

پہلی وجہ: خاوند پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو عفت اور پاکدامنی مہیا کرے، اور بیوی کی ضرورت اور اپنی طاقت کے مطابق جسمانی تعلقات قائم کرے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک شخص اپنی بیوی کے پاس مہینہ ، دو مہینے نہیں جاتا ، جسمانی تعلقات قائم نہیں کرتا تو کیا مرد کو اس کا گناہ ہو گا یا نہیں؟ کیا خاوند سے ہم بستری کا مطالبہ کیا جائے گا؟

تو انہوں نے جواب دیا:
“مرد پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے جسمانی تعلقات قائم رکھے، بلکہ یہ بیوی کا بنیادی ترین حق ہے؛ کیونکہ جسمانی تعلق کھانا کھلانے سے بھی بڑا حق ہے، ہم بستری واجب حق ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت کے بارے میں کہا گیا ہے: ہر چار ماہ میں ایک بار ہم بستری کرے، کچھ کہتے ہیں کہ: بیوی کی ضرورت اور اپنی طاقت کے مطابق ہم بستری کرے، بالکل ایسے ہی جیسے خاوند بیوی کو کھانا اس کی ضرورت اور اپنی طاقت کے مطابق مہیا کرتا ہے، یہی موقف صحیح ترین موقف ہے۔” ختم شد
” مجموع الفتاوى ” ( 32 / 271 )

دوسری وجہ: جو شخص اپنی بیوی سے چار ماہ تک جسمانی تعلقات قائم نہ کرے اور بیوی نافرمان بھی نہ ہو تو اس کا حکم ایلا کرنے والا ہو گا، ایسے خاوند کو ہم بستری کا حکم دیا جائے گا اگر نہ کرے تو طلاق کا کہا جائے گا، اور اگر طلاق بھی نہ دے تو قاضی دخل اندازی کرتے ہوئے طلاق جاری کر دے گا۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
“اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین ماہ سے زیادہ چھوڑے رکھے: تو اگر بیوی کی نافرمانی کی وجہ سے تھا یعنی: بیوی اپنے خاوند کے واجب حقوق پورے نہیں کر رہی تھی حالانکہ خاوند نے بیوی کو نصیحت بھی کی اور اسے اللہ تعالی سے ڈرایا بھی، اور اسے خاوند کے واجب حقوق بھی یاد کروائے، تو خاوند بیوی کو سمجھانے اور راہِ راست پر لانے کے لیے جب تک چاہے بستر الگ کر سکتا ہے، تا آں کہ بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے کے لیے خود سے راضی ہو جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اپنی بیویوں سے قطع تعلقی کر لی تھی اور مہینہ بھر آپ اپنی بیویوں کے پاس نہیں گئے تھے۔ جبکہ عام گفتگو وغیرہ میں تو تین دن سے زیادہ بات چیت کی بندش جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کسی بھی مسلمان کے لیے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھنا جائز نہیں ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری و مسلم نے اور امام احمد نے روایت کیا ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو نقصان پہنچانے کے لیے اس سے جسمانی تعلقات چار ماہ کے بعد بھی نہیں قائم کرتا حالانکہ بیوی نے اپنے خاوند کے حقوق میں کسی قسم کی کسر نہیں اٹھائی ہوئی تو ایسا خاوند ایلا کرنے والے کی طرح ہے، اگرچہ اس نے ایلا کے لیے قسم نہ بھی اٹھائی ہو ، ایسے خاوند کے لیے ایلا کی مدت ہی دیکھی جائے گی، چنانچہ اگر ایسا خاوند جماع کی استطاعت رکھتے ہوئے بیوی کی اندام نہانی میں جماع نہیں کرتا ، اور بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں بھی نہیں ہے تو اسے طلاق دینے کا حکم دیا جائے گا، اگر خاوند بیوی کے ساتھ جسمانی تعلقات بھی نہ بنائے اور طلاق بھی نہ دے، تو بیوی کے مطالبے پر قاضی دخل اندازی کرتے ہوئے طلاق جاری کر دے گا یا نکاح فسخ کر دے گا۔

اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے، اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔” ختم شد

الشيخ عبد العزيز بن باز , الشيخ عبد العزيز آل الشيخ , الشيخ صالح الفوزان , الشيخ بكر أبو زيد۔

ماخوذ از: ” فتاوى اللجنة الدائمة ” ( 20 / 261 – 263 )

دوم:

اگر خاوند اپنے علاقے سے دور سفر پر ہو، اور بیوی خاوند کے 6 ماہ سے زیادہ دور رہنے پر راضی نہ ہو تو اس کا معاملہ قاضی کے سامنے پیش کیا جائے گا، تا کہ قاضی خاوند کو نوٹس جاری کرے اور اسے واپس آنے پر مجبور کرے، اگر پھر بھی خاوند بیوی کے پاس نہ پہنچے تو قاضی طلاق یا فسخ نکاح جو مناسب سمجھے فیصلہ کر دے۔

چاہے خاوند کا یہ سفر اور دوری کسی عذر کی وجہ سے ہو، مثلاً: کمانے کے لیے گیا ہوا ہے، یا اپنے علاقے میں کام نہیں مل رہا، یا یہ سفر اور دوری بلا عذر ہو، ہر دو صورت میں یہی حکم ہو گا۔

اس سفر اور دوری کے عذر یا بغیر عذر کے ہونے میں یہ فرق ہو گا کہ: عذر کی وجہ سے بیوی کے پاس واپس آنا لازم نہیں ہو گا، اور واپس نہ آنے کی وجہ سے اسے گناہ بھی نہیں ہو گا۔

لیکن اگر کوئی عذر بھی نہیں ہے تو پھر اس پر واپس آنا لازم بھی ہے اور اگر واپس نہیں آتا تو اس پر گناہ بھی ہو گا۔

اور دونوں حالتوں میں بیوی طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے؛ کیونکہ بیوی کو اپنے آپ سے ضرر اور تکلیف دور کرنے کا حق ہے، اور اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (102311) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب