الحمد للہ.
روزہ افضل ترین عبادات میں شامل ہے، اور اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عبادت ہے، چنانچہ بخاری: (1904) اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کا فرمان ہے: روزے کے سوا انسان کا ہر عمل اسی کیلیے ہے ، اور روزہ میرے لیے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، روزہ ڈھال ہے، لہذا جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو بیہودگی والی باتیں نہ کرے اور نہ ہی آواز بلند کرے؛ اگر پھر بھی کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے لڑائی لڑے تو یہ کہہ دے: "میں روزے دار ہوں" اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ محبوب ہے، روزے دار کیلیے دو خوشی کے مواقع ہوتے ہیں : جب روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا)
اس حدیث میں روزے کا اللہ تعالی کی شریعت میں مقام و مرتبہ بالکل عیاں اور واضح ہے، اسی طرح روزے داروں کی فضیلت سمیت انہیں ملنے والا بہترین بدلہ بھی ذکر ہوا ہے۔
شیخ ابن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں دو طرح کا ثواب ہے کہ فوری اور دوسرا قدرے دوری پر :
فوری کا مشاہدہ تو ہم بھی کرتے ہیں کہ جب روزے دار روزہ افطار کرتا ہے تو روزے کی
تکمیل پر اللہ تعالی کی اس نعمت سے خوش ہوتا ہے، نیز کھانے پینے سمیت دل کو بھانے
والی اشیا روزہ مکمل ہونے پر حاصل کرتا ہے، جن سے روزے نے روکا ہوا تھا۔
قدرے دوری والا ثواب اللہ تعالی سے ملاقات کے وقت رضائے الہی اور تکریم کی صورت
میں حاصل ہو گا، نیز یہ فوری ثواب دوری پر موجود ثواب کا ایک مظہر ہے، اور اللہ
تعالی دونوں ثواب روزے دار کو عطا فرمائے گا۔
نیز یہاں یہ بھی اشارہ ہے کہ روزے دار جس وقت روزہ افطار کرنے کے قریب ہوتا ہے اور
اسے روزہ افطار کرنے کی خوشی بھی حاصل ہو جاتی ہے ، یہ در حقیقت اس مشقت اور تکلیف
کے مقابلے میں ہے جو دن میں اسے پسندیدہ چیزیں چھوڑنے کی وجہ سے حاصل ہوئی، نیز
فوری ثواب نیکی کیلیے ابھارنا ہے" انتہی
"بهجة قلوب الأبرار" (96) اور اسی طرح دیکھیں: "فتح الباری" از: ابن حجر :(4/118)
یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان کو روزہ رکھنے پر قابل برداشت حد تک مشقت حاصل ہو تو وہ بھی افطاری کے وقت خوش ہوتا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ اب مشقت زائل ہونے لگی ہے ؛ بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالی نے روزے کی مشقت برداشت کرنے کی صلاحیت بخشی اور روزے جیسی عظیم اطاعت مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی، لہذا مسلمان کی نظر مشقت پر نہیں ہوتی کہ اب مشقت زائل ہونے والی ہے، بلکہ اس کی نظریں روزے کی نیکی پر ہوتی ہیں کہ اب روزہ مکمل ہونا والا ہے، نیز صحیح حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ دعا کرتے ہوئے خوب کوشش کرو؟ تم کہو: "اَللَّهُمَّ أَعِنَّا عَلَى شُكْرِكَ وَذِكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ"[یا اللہ! ہماری تیرے شکر، ذکر اور اچھی طرح عبادت کرنے کیلیے مدد فرما]) احمد: (7922) البانی نے اسے "سلسلہ صحیحہ": (844) میں صحیح قرار دیا ہے۔
آپ کو کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جس کا سینہ ماہ رمضان کے آنے پر کڑھنے لگے، البتہ جو شخص اس دنیا میں مگن ہو ، شہوت و لذت پرستی میں ڈوبا ہوا ہو وہی اس مہینے سے بھاگتا ہے۔
روزوں کی وجہ سے دو قسم کے لوگوں کو ہی مشقت و تکلیف جھیلنا پڑتی ہے:
1- وہ شخص جس کے پاس معقول شرعی عذر ہے: بیماری یا سفر وغیرہ کی شکل میں تو وہ روزہ چھوڑنے کیلیے اللہ تعالی کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرے۔
2- جس شخص کو روزہ رکھنے کی وجہ سے قابل برداشت مشقت ہوتی ہے تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے، اور حصولِ رضائے الہی کیلیے اس مشقت پر صبر کرے ۔
لیکن جو شخص روزہ رکھنے کی وجہ سے ملنے والی مشقت پر روزوں کو ہی ناگوار سمجھے، ماہِ رمضان کے ختم ہونے کی تمنا کرے اور رمضان دوبارہ نہ آنے کا سوچے تو یقینی بات ہے کہ یہ صورت مناسب نہیں ہے، کیونکہ وہ عبادت کو اچھا نہیں سمجھتا اور اللہ تعالی کے حکم سے صبر نہیں کرتا۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (13480) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.