الحمد للہ.
حج واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ انسان مالی اور بدنی طور پر حج کی استطاعت رکھتا ہو، اور مالی استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس اپنی بنیادی ضروریات سے زیادہ مال ہو، یہاں "بنیادی ضروریات" سے مراد انسان کی زندگی کیلئے ضروری اشیاء ہیں جن میں کھانے پینے، لباس اور سواری وغیرہ شامل ہیں۔
چنانچہ اگر کسی انسان کے پاس اپنی ضرورت سے زائد چیزیں موجود ہیں اور اگر انہیں چھوڑ بھی دے تو اس کی زندگی پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے تو اسے ان چیزوں کو بیچ کر حج کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔
جبکہ خواتین کی بنیادی ضروریات میں زیورات بھی آتے ہیں، چنانچہ اگر کسی عورت کے پاس صرف اپنی ضرورت کے مطابق زیورات ہوں ، تو عورت کیلئے یہ زیورات فروخت کر کے حج کرنا لازمی نہیں ہے، لیکن اگر ضرورت سے زائد زیورات ہوں تو حج کی ادائیگی کیلئے اپنے زیورات فروخت کرے ۔
چنانچہ اس بارے میں شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"اپنے اور محرم کے حج کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کسی عورت پر اپنے زیورات فروخت کرنا لازمی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"۔۔ ایسا کرنا واجب نہیں ہے، ہاں اگر ضرورت سے زائد ہوں کہ ایسے زیورات جنہیں عام طور پر خواتین استعمال نہیں کرتیں ، [تو انہیں فروخت کر کے حج کے اخراجات پورے کرے] اس صورت میں ایسی خاتون کا حکم وہی ہو گا جو ایک طالب علم کا ہوتا ہے، کہ اس کے پاس کچھ کتابیں ایسی ہیں جن کی اسے ضرورت ہے، اور کچھ ایسی ہیں کہ ایک کتاب کے ایک سے زائد نسخے ہیں یا ان کتابوں کی اسے ضرورت نہیں ہے" انتہی
http://madrasato-mohammed.com/outaymin/pg_072_0001.htm
شیخ حمد بن عبد اللہ الحمد حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اس کے پاس ایسی چیزیں ہیں جنہیں فروخت کیا جا سکتا ہے ، اور انہیں فروخت کرنے سے اس کی زندگی پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے ، مثال کے طور پر: اس کے دو مکان ہیں، یا دو گاڑیاں ہیں، یا کسی خاتون کے پاس اپنی ضرورت سے زائد سونا ہے، یا اسی طرح کی کوئی بھی چیز جو بنیادی ضرورت سے زائد ہے تو ایسی صورت میں اسے فروخت کر کے فریضہ حج ادا کرنا واجب ہے"
یعنی اگر کوئی قیمتی چیز بنیادی ضرورت سے فاضل ہے ، اسے اس کی ضرورت نہیں ہے، تو اسے فروخت کر ے" انتہی
" شرح زاد المستقنع " از شیخ : الحمد
واللہ اعلم.