الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالی کے ناموں میں "الرزاق" بھی شامل ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ * مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ * إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ٭ میں ان سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ مجھے رزق دیں، اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں٭ یقیناً اللہ تعالی ہی رزاق اور قوت والا اور مضبوط ہے۔ [الذاریات: 56- 58]
لفظ "رزاق" یہ اسم فاعل رازق سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت زیادہ عطا کرنے والا۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے مقدر میں جو کچھ بھی لکھا ہے، یا ان پر اپنے خزانوں سے نازل کیا مثلاً: دولت، اولاد، بیوی، علم ، اخلاق یا صحت الغرض ہر چیز ہی اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے رزق ہے؛ چاہے انہوں نے خود اسے حاصل کیا ہو، یا وراثت میں وصول کیا ہو، یا کسی کی طرف سے تحفہ ملا ہو، بلکہ چاہے وہ حلال ہے یا حرام یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے رزق ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ
ترجمہ: اور آسمان میں ہی تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ [الذاریات: 22]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ
ترجمہ: اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہے۔[النحل: 53]
دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بندے کے پاس کسی اور کی طرف سے آنے والے مال کو رزق قرار دیا ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص کو اللہ تعالی اس دولت میں سے کچھ بھی بغیر مانگے دے دے تو اسے قبول کر لے؛ یقیناً یہ اس کے لیے رزق ہے جو اللہ تعالی نے اس کی طرف بھیجا ہے۔) مسند احمد: (7908) ،علامہ البانی نے اسے "صحيح الجامع" (5921) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح قعقاع بن حکیم سے مروی ہے کہ : "عبد العزیز بن مروان نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی جانب مراسلہ بھیجا کہ آپ کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو ہمیں لکھ بھیجیں۔ قعقاع بن حکیم کہتے ہیں: اس مراسلے کے جواب میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ([خرچ کرتے ہوئے] ان سے آغاز کرو جن کی تم کفالت کرتے ہو، اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے) اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نچلے ہاتھ سے مراد مانگنے والا ہاتھ ہے۔ اس لیے میں آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کروں گا، اور نہ ہی میں اس رزق کو مسترد کروں گا جو اللہ تعالی مجھے آپ کی طرف سے بھیجے گا۔"
مسند احمد: (6402) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو سلیمان رحمہ اللہ کہتے ہیں: رزاق سے مراد وہ ذات ہے جو رزق کی ذمہ دار ہے، اور اس ذات کو رزاق کہتے ہیں جو ہر جان کی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: جائز اور ناجائز ہر چیز جو رزاق کی طرف سے بندے کو پہنچے ، وہ اللہ کی طرف سے رزق ہی ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ لفظ رزق معاش اور روزی پر بولا جاتا ہے اور یہاں اللہ تعالی نے اس جائز یا ناجائز چیز کو اس کے لیے معاش یا روزی بنا دیا ہے۔" ختم شد
"الأسماء والصفات" (1 /172)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ "رزق" سے مراد صرف وہ چیزیں بھی لی جاتی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے بندوں کے لیے مباح قرار دیا ہے، اور جن چیزوں کو اللہ تعالی نے بندے کی ملکیت میں دیا ہے۔
تاہم اس سے مراد ہر وہ چیز بھی مراد لی جاتی ہے جس سے انسان اپنے جسم کی ضرورت پوری کرتا ہے۔
پہلا مفہوم اللہ تعالی کے اس فرمان میں مراد ہے: وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ یعنی: ہم نے جو کچھ مباح رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرو۔
یہی مفہوم اس فرمان میں بھی مراد ہے: وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ یعنی: ہم نے انہیں جو کچھ رزق دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔
تو یہاں پر رزق سے مراد صرف حلال اور ذاتی ملکیت میں موجود چیز ہے، چنانچہ اس میں شراب یا حرام مال مراد نہیں ہے۔
جبکہ دوسرا مفہوم اللہ تعالی کے اس فرمان میں مراد ہے: وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا یعنی: دھرتی پر جو بھی جاندار ہے اس کا رزق اللہ تعالی کے ذمہ ہی ہے۔
اب یہاں دیکھیں کہ اللہ تعالی تو جانوروں کو بھی رزق عطا فرماتا ہے، اور جانوروں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی چیز کے مالک ہیں، نہ ہی ان جانوروں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے ان چیزوں کو شرعی طور پر حلال اور مباح قرار دیا ہے؛ کیونکہ جانور تو شریعت کے مکلف ہی نہیں ہیں، اسی طرح بچے اور پاگل افراد پر بھی شرعی احکامات لاگو نہیں ہوتے، لہذا ان جانوروں کو ملنے والا رزق نہ تو ان کی ملکیت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر وہ حرام ہوتا ہے۔
حرام چیز تو وہ کچھ چیزیں ہیں جنہیں انسان بطور غذا استعمال کرتا ہے، تو یہ حرام چیزیں بھی اس رزق میں شامل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کو علم تھا کہ انسان ان چیزوں کو بطور غذا استعمال کرے گا، اور پھر ایسا ہی ہوا، لیکن جو رزق اللہ تعالی نے ان کے لیے مباح قرار دیا یا ان کی ملکیت میں شامل کیا تو وہ ایسے نہیں ہے۔
جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے بطن میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں ہوتی ہے، پھر وہ اتنی ہی دیر علقہ کی شکل میں ہوتی ہے، اور پھر اتنی ہی دیر مضغہ کی شکل میں ہوتی ہے، پھر اس کی طرف فرشتہ بھیجا جاتا ہے تو اسے چار چیزوں کا حکم دیا جاتا کہ لکھو: اس کا رزق، عمر، عمل ،نیک یا بد بخت۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ مزید فرمایا کہ: قسم ہے اس ذات کے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: یقیناً تم میں کوئی جنتیوں والے اتنے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، لیکن اس پر تحریر غالب آ جاتی ہے اور وہ جہنمیوں والے عمل کر کے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور یقیناً تم میں کوئی جہنمیوں والے اتنے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، لیکن اس پر تحریر غالب آ جاتی ہے اور وہ جنتیوں والے عمل کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔)
چنانچہ رزق چاہے حرام بھی ہو وہ اللہ تعالی کی طرف سے تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اور فرشتوں نے بھی اسے لکھا ہے، نیز یہ اللہ تعالی کی مشیئت اور خلق کے تحت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اسے حرام بھی قرار دیا ہے اور اس سے روکا بھی ہے، چنانچہ حرام کمانے والے شخص کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے اتنا غضب، مذمت اور سزا ہو گی جس کا وہ حقدار ہو گا۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (8/545)
واللہ اعلم