سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا اور آپ کے سامنے شکایات پیش کرنا شرک اکبر ہے۔

200862

تاریخ اشاعت : 01-01-2017

مشاہدات : 22976

سوال

میرا تعلق کیرلا سے ہے اور "مولد المنقوص" نامی کتاب ہمارے ہاں بہت مشہور ہے، ہر شخص اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے اس کتاب کو اپنے گھر میں پڑھنے کا اہتمام کرتا ہے، لیکن کیرلا ہی میں کچھ لوگ ہیں جنہیں "سلفی" کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں بہت سی شرکیہ باتیں ہیں۔
مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ: " ارتكبت الخطايا ، لك أشكو يا سيدي يا خير النبيين"[میں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، یا سیدی! اے سب نبیوں سے بہتر نبی! میں آپ سے اس کا شکوہ کرتا ہوں] کیا ایسا کہنے میں شرک ہے؟ اور کیا ایسا کہنا حرام ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال میں جس کتاب کی جانب اشارہ ہے  یہ کتاب خرافات، قصے کہانیوں، شرکیہ اور بدعتی امور پر مشتمل ہے، اس کتاب کے مصنف نے اس میں  جشن عید میلاد النبی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں غلو اور آپ سے حاجت روائی ، اور مانگنے اور اسی طرح دیگر انبیائے کرام سمیت نیک لوگوں کو پکارنے وغیرہ جیسے اعمال کو شریعت کا لبادہ پہناتے ہوئے مدلل بنانے کوشش کی ہے،موصوف نے   اس مقصد کیلیے بہت سی جھوٹی، من گھڑت احادیث اور عجیب و غریب عبارتوں کی بھر مار کر دی ہے، اور اگر ہم ان میں سے ایک ایک کا رد کرنے لگیں تو اس کیلیے بہت سا وقت درکار ہو گا، بلکہ مؤلف کی لکھی ہوئی ہر ایک سطر کا تعاقب اور رد لکھنا پڑے گا۔

مؤلف کے خود ساختہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس بات کی نسبت کرنا  ہے کہ آپ رحمہ اللہ ، پروردگار رب العالمین کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مانگتے تھے اور کہتے تھے:

يا سيد السادات جئتك قاصدا ** أرجو رضاك وأحتمي بحماكا

اے سربراہوں کے سربراہ! میں تیری طرف آیا ہوں، میری تیری رضا چاہتا ہوں اور تیری پناہ میں آتا ہوں۔
والله يا خير الخلائق إن لي ** قلبا مشـــــــــــــــــوقا لا يروم سواكا
اے افضل المخلوقات! اللہ کی قسم میرا دل بہت ہی مشتاق ہے، اسے تیری سوا کسی کی چاہت نہیں۔
وبحق جاهك إنني بك مغرم ** والله يعلم أنني أهـــــــــــــواكا
تیری جاہ کے حق کا واسطہ میں تیرا عاشق ہوں، اللہ جانتا ہے کہ میں تیرا ہی عاشق ہوں۔
يا أكرم الثقلين يا كنز الغنى ** جد لي بجودك وارضني برضاكا
اے جن و انس کی محترم ہستی! اے بے نیازی کے سرچشمے! اپنی سخاوت سے مجھے عطا کریں اور اپنی رضا  کے ساتھ مجھ سے راضی ہو جائیں۔
أنا طامع بالجود منك ولم يكن** لأبي حنيفة في الأنام سواكا
میں تو آپ ہی کی سخاوت کا منتظر ہوں، ابو حنیفہ کیلیے تیرے سوا کوئی نہیں ہے!

اسی طرح اس کتاب کے مؤلف نے امام شافعی رحمہ اللہ سے ذکر کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
" آل النبي ذريعتي ** وهمو إليه وسيلتي
نبی کے اہل بیت ہی میرا واسطہ ہیں وہی میرے لیے آپ تک وسیلہ ہیں۔
أرجو بهم أعطى غدا ** بيدي اليمين صحيفتي
ان کے واسطے میں امید کرتا ہوں کہ کل مجھے میرے دائیں ہاتھ میں میرا نامہ اعمال دیا جائے گا۔

حالانکہ یہ ان دونوں جلیل القدر موحد ائمہ کرام کے بارے میں سفید جھوٹ ہے؛ اگر یہ جھوٹ نہیں ہے تو پھر ان دونوں اماموں سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ یہ ثابت کر کے دکھا دے، یا کم از کم ضعیف سند سے ہی ثابت کر دے، کیا وہ ایسا کر سکے گا؟ کبھی بھی نہیں!!

اس کتاب میں آنے والے شرکیہ امور میں سے یہ بھی ہے کہ:

"یہ جان لو کہ  اللہ کے محبوب بندوں مثلاً: انبیائے کرام، اولیائے عظام اور نیک لوگوں سے حاجت روائی کا مطالبہ ان کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد ہر دو حالت میں جائز ہے۔۔۔"
پھر انہوں نے کہا کہ:
"اس سے معلوم ہوا کہ : "یا رسول اللہ مدد "کہہ کر  حاجت روائی کا مطالبہ کرنا جائز ہے، اسی طرح  "یا غوث، یا محی الدین عبد القادر جیلانی" وغیرہ کہنا بھی درست ہے"

سائل کے سوال میں ذکر شدہ عبارت بھی اس کتاب میں مذکور شرکیہ امور میں سے ایک ہے:
" ارتكبت الخطايا ، لك أشكو يا سيدي يا خير النبيين"[میں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، یا سیدی! اے سب نبیوں  سے بہترین  نبی! میں آپ سے اس کا شکوہ کرتا ہوں]

یہ شرک اکبر ہے، کیونکہ گناہوں سے توبہ صرف اور صرف اللہ تعالی سے مانگی جاتی ہے، اسی طرح گناہوں کے اثرات اور وبال کی شکایت بھی اللہ تعالی سے کی جاتی ہے۔

پہلے سوال نمبر: (179363) میں تفصیل سے گزر چکا ہے کہ: ( وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ...) یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، آپ کی وفات کے بعد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ میں امت کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ اگر وہ گناہ کر بیٹھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، یا اگر گناہ سے بھی بڑا پاپ مثلاً: شرک وغیرہ سر زد ہو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توبہ تائب ہو کر اور ندامت کے ساتھ آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلیے مغفرت طلب کریں، نیز یہاں پر آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی زندگی میں آنا مراد ہے؛ لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اس مقصد سے قبر مبارک پر آنا شرعی عمل نہیں ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعدصحابہ کرام نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا؛ حالانکہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، دینِ محمدی کے بارے میں سب سے زیادہ فقاہت بھی انہی کے پاس تھی؛اور  [صحابہ نے ایسا عمل اس لیے نہیں کیا ؛]کیونکہ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلیے استغفار نہیں کر سکتے تھے" انتہی
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن باز (6/ 189-190)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ، اللہ کو چھوڑ کر آپ سے مانگنا، آپ کی وفات کے بعد آپ سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنا، شرک اکبر ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج کرنے کا باعث ہے، تو کسی اور سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنے  کا کیا حکم ہو گا؟!

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:

" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ، آپ کو صدا لگانا ، آپ کی وفات کے بعد حاجت روائی یا مشکل کشائی کیلیے مدد کا مطالبہ کرنا، شرک اکبر ہے  جو کہ انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے علاوہ دیگر مخلوقات سے دعا مانگنا شرک اور گمراہی ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کوئی بھی دعا کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے انسان کو اس شرک سے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ کے سوا کسی سے بھی دعا  نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا ما شاء اللہ خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کے مالک نہیں تھے، اسی لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ یہ بات اعلانیہ طور پر کہہ دیں، چنانچہ اللہ تعالی نے حکم دیا:
(قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: میں اپنے لیے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں، ما سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت سے مفادات جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو صرف ایمان لانے والی قوم کو ڈرانے اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ [الأعراف:188]

ایک اور جگہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
( قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ )
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں  ۔[الأنعام:50]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے  اور اپنے لیے اللہ تعالی سے مغفرت اور رحمت مانگتے تھے، اسی طرح اپنے صحابہ کرام کیلیے بھی دعائیں کرتے تھے، اگر آپ کسی کی مغفرت کرنے یا رحم کرنے پر قادر ہوتے تو کبھی بھی اللہ تعالی سے دعا کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ، اس لیے یہ بات واضح ہے کہ ساری مخلوقات اللہ تعالی کی محتاج ہیں، صرف اللہ تعالی ہی غنی اور تعریفوں کے لائق ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )
ترجمہ: اے ایمان والو! تم  سب اللہ تعالی کے محتاج ہو، اور اللہ تعالی ہی غنی اور تعریف کے لائق ہے۔[فاطر:15]

اگر شیطان ان لوگوں کی عقلوں اور نظریات سے کھلواڑ نہ کرتا تو انہیں یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کوئی بھی کسی کیلیے نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اور یہ کہ یہ تمام ہستیاں صرف ایک اللہ تعالی کو ہی پکارتی تھیں:
( أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ )
ترجمہ: بھلا کون  ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین میں جانشین  بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ [النمل:62]" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (21/ 218-219)

خلاصہ یہ ہے کہ:

کسی بھی بشر کے سامنےاپنی زبوں حالی، گناہوں کی شکایت ، گناہوں کا اقرار اور کوتاہیوں سے توبہ کرنا، اور اس طرح ان سے مدد و نصرت کا مطالبہ کرنا یہ سب کچھ اللہ عز وجل کے ساتھ شرک ہے؛ کیونکہ یہ امور خالص عبادات میں شامل ہیں، انہیں غیر اللہ کیلیے بجا لانا جائز نہیں ہے۔

صحیح مسلم : (2577) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں ، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب  بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں  ، اس لیے مجھ سے رزق مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔  میرے بندو!تم  سب کے سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں پہننے کیلیے دوں ، اس لیے مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس دوں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو، اور میں سب گناہ معاف کرتا ہوں، اس لیے مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسا کوئی کام جو صرف اللہ تعالی ہی کر سکتا ہے اس کا مطالبہ صرف اللہ تعالی سے ہی کرنا جائز ہے، ایسے امور کا مطالبہ  فرشتوں، نبیوں یا کسی اور سے کرنا جائز نہیں ہے، غیر اللہ کو یہ  نہیں کہا جا سکتا کہ: "مجھے معاف کر دے، ہمیں بارش عطا فرما، ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما، یا ہمارے دلوں کی رہنمائی فرما، یا اسی طرح کا کوئی اور جملہ " طبرانی نے اپنی کتاب معجم  میں روایت کی ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک منافق مومنوں کو تکلیف دیا کرتا تھا، تو صحابہ کرام نے کہا: کہ چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  اس منافق کے مقابلے میں مدد مانگتے  ہیں، تو صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (مجھے غوث نہیں بنایا جا سکتا، غوث تو صرف اللہ ہے)" انتہی
"مجموع الفتاوى" (1/ 329)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب