سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نصاب پورا ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کرنا اور زکاۃ کی ادائیگی میں غلطیاں

سوال

میرے والد زکاۃ کی ادائیگی میں غلطی کرتے رہے ہیں؛ کیونکہ وہ نصاب پورا ہونے سے پہلے ہی زکاۃ دیتے رہے ہیں، ان کے مطابق جب بھی سال ہوتا تو وہ زکاۃ دے دیتے تھے، تاہم ہجری سال کا اعتبار نہیں کرتے تھے بلکہ عیسوی سال کا اعتبار کرتے تھے۔

تو اب وہ ان سالوں کی زکاۃ کا کیا کریں جن میں زکاۃ کی ادائیگی انہوں نے غلطی کرتے ہوئے کی ہے؟

اور کچھ سال تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اس میں زکاۃ ویسے ہی ادا نہیں کی، تو میں انہیں ان سالوں کے بارے میں کیا کہوں؟

تو آپ جانتے ہیں کہ ان سالوں میں ادا کی گئی زکاۃ ؛ زکاۃ شمار نہیں کی جا سکتی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ میرے والد بہت مشفق، اچھے اور بھلے انسان ہیں، لیکن ان کی یہ خوبیاں اللہ کے سامنے جوابدہی کے وقت کچھ فائدہ نہیں دیں گی؛ اس لیے کہ بسا اوقات میں اپنے والد کی بات کو صحیح نہیں سمجھتا۔ اس لیے کہ میں جب ان کے سامنے ان سالوں کا ذکر کرتا ہوں جن میں انہوں نے زکاۃ نہیں ادا کی تو وہ اس چیز کی نفی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: میں نے ان سالوں کی بھی زکاۃ ادا کی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلے سوال نمبر: (138703) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ مال کا نصاب پورا ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کرنا نفلی صدقہ شمار ہو گا؛ کیونکہ مال میں زکاۃ فرض ہی اس وقت ہوتی ہے جب نصاب پورا ہو جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نصاب پورا ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کرنا جائز نہیں ہے، ہمارے علم کے مطابق اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ چنانچہ اگر کوئی شخص نصاب کے کچھ حصے کا مالک بن جائے اور اس کی زکاۃ ادا کرنے میں جلد بازی کرے، یا [اس میں سے] نصاب کے برابر زکاۃ ادا کر دے تو یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس نے سبب سے پہلے ہی حکم کی تعمیل میں جلد بازی کر دی" ختم شد
"المغنی" (2/ 471)

دوم:

گزشتہ سالوں میں زکاۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب شخص گناہ گار ہے، اس پر توبہ لازمی ہے، پھر اگر اسے ان سالوں میں اپنی ملکیت میں موجود مال کی مقدار کا علم ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہے۔ چنانچہ وہ شخص گزرے ہوئے ایسے ہر سال کی پوری شرعی زکاۃ ادا کرے گا جس میں اس نے زکاۃ ادا نہیں کی۔

لیکن اگر اسے واضح طور پر معلوم نہ ہو کہ اس کے پاس کتنا مال تھا، اور نہ ہی تخمینہ لگانا ممکن ہو تو اپنی استطاعت کے مطابق صحیح ترین تخمینہ لگا کر اس میں سے زکاۃ ادا کرے۔

اور اگر کچھ سالوں کی زکاۃ کی مقدار تو معلوم ہو اور کچھ کہ معلوم نہ ہو تو جن سالوں کی معلوم ہے ان کی پوری مقدار میں شرعی زکاۃ دے، اور جن سالوں کی معلوم نہیں ہے تو ان میں صحیح ترین تخمینے تک پہنچنے کی بھر پور کوشش کرے اور ان کی زکاۃ ادا کرے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26119) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

اگر انسان کے پاس اتنا مال ہو کہ زکاۃ کا نصاب پورا ہو جائے تو سال پورا ہونے سے پہلے بھی زکاۃ ادا کر سکتا ہے، چنانچہ اگر شوال میں اس پر زکاۃ واجب ہو گی لیکن وہ رمضان میں ادا کر دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ کے واجب ہونے کا سبب [یعنی نصاب] موجود ہو تو وقت وجوب [ادائیگی کا وقت یعنی ہجری سال پورا ] ہونے سے پہلے ادا کرنا: تو یہ ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد جمہور علمائے کرام کے ہاں جائز ہے؛ چنانچہ ان کے ہاں جانوروں، سونے، چاندی اور تجارتی سامان کی زکاۃ سال پورا ہونے سے پہلے ادا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ پورے نصاب کا مالک ہو" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (25/ 85)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1966) کا جواب ملاحظہ کریں۔

چہارم:

مال میں زکاۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب12 قمری مہینے اس پر گزر جائیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ 

ترجمہ: وہ آپ سے چاندوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیں: یہ لوگوں اور حج کے لئے تقویم ہیں۔[البقرة:189]

اس لیے زکاۃ کی ادائیگی وقت مقررہ سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے؛ الا کہ کوئی شرعی عذر آڑے آ جائے جس کی بنا پر زکاۃ ادا کرنا ممکن نہ ہو۔

اس بنا پر زکاۃ کی ادائیگی کے لئے عیسوی سالوں کو بنیاد بنانا جائز نہیں ہے۔

اگر کوئی اپنی زکاۃ عیسوی سالوں کے مطابق ادا کرتا رہا ہے تو اسے رہ جانے والا فرق ادا کرنا ہو گا، اور اس فرق کا حساب لگانے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

  • پہلی بار جب زکاۃ ادا کی تھی اس کی ہجری تاریخ معلوم کریں، پھر آئندہ سے اسی ہجری تاریخ میں اپنی زکاۃ ادا کریں۔
  • ہجری قمری اور شمسی عیسوی سالوں میں تقریباً 11 دنوں کا فرق ہوتا ہے، تو آپ وہ تمام سال شمار کریں جن میں آپ نے عیسوی سالوں کا اعتبار کیا ، پھر اسے 11 دنوں سے ضرب دیں، اور پھر حاصل جواب کو ہجری سال میں شامل کریں، اور پھر اس کے مطابق زکاۃ دے دیں، اور ہم نہیں سمجھتے کہ ہجری اور عیسوی سال میں اختلاف کی وجہ سے پورے سال کا فرق نکل آئے گا اور پھر انہیں پورے سال کی ایک اور زکاۃ دینی پڑے ، اس لیے ظاہر ہے کہ مہینوں اور دنوں میں فرق نکلے گا، تو اس اعتبار سے انہوں نے جتنی بھی زکاۃ ادا کی ہو گی وہ صحیح قرار پائے گی اور آئندہ کے لئے زکاۃ کا وقت اسی اعتبار سے مقرر کرنا ہوگا۔

پنجم:

سائل نے سوال کرتے ہوئے مبہم بات کی ہے، یا مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں، تو ہم نے ان کے سوال کے جتنے بھی احتمالات ہو سکتے تھے سب کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

  • اگر ان کے والد نے اپنے مال کی زکاۃ نصاب تک پہنچنے سے پہلے بھی کئی سال تک ادا کی ہے تو اس بارے میں یہ ہے کہ جو مال ابھی نصاب کو ہی نہیں پہنچا اس میں تو زکاۃ ویسے ہی واجب نہیں ہے، چنانچہ جو زکاۃ انہوں نے ادا کی ہے وہ نفل صدقہ شمار ہو گا، اور نفل صدقے کے لئے عیسوی یا ہجری سال کا اعتبار کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
  • اگر سائل کے والد نے زکاۃ کا نصاب مکمل ہونے کے بعد لیکن سال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ دی تو تب بھی ان کی زکاۃ صحیح ہے، اس میں سال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ دینے میں کوئی حرج نہیں۔
  • مال نصاب کو پہنچ جائے اور عیسوی سال کو معتبر سمجھتے ہوئے زکاۃ تاخیر سے دے تو یہ ان کی غلطی ہے، اس لیے انہیں توبہ اور استغفار کرنا چاہیے؛ چنانچہ اگر وہ لا علم ہیں اور ایسا بہت زیادہ ہوتا بھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک اپنے حساب کتاب، تنخواہیں اور دیگر سب کام عیسوی کیلنڈر کے مطابق ترتیب دیتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں ان پر کوئی گناہ ہے ہی نہیں؛ کیونکہ اس معاملے میں ہم زکاۃ دینے والے کی صحت، عمر، یا تعلیمی قابلیت کو مد نظر نہ بھی رکھیں تب بھی بہت سے لوگ اس غلطی فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے مسائل میں غلطی ہو جانا معمولی ہو سکتا ہے، اس لیے والد محترم پر حد سے زیادہ سختی کرنا مناسب نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ غلطی کی اصلاح کر دیں اور بس۔
  • اصولی بات تو یہ ہے کہ آپ کے والد کسی بھی قسم کے قرضوں اور مالی ذمہ داریوں سے بری ہیں، اس لیے محض تخمینوں اور اندازوں کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان پر گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی واجب ہے۔ ان کے بارے میں بنیادی حکم یہی ہے کہ وہ اپنی دینی اقدار پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ایمانداری سے اپنے مال کی زکاۃ دیتے آئے ہیں، اس لیے سابقہ سالوں کی زکاۃ میں سے ان پر تبھی کچھ لازم ہو گا جب کوئی دلیل بھی ہو گی۔ چنانچہ اگر وہ اپنی گفتگو میں سچ کا اہتمام کرتے ہیں تو ماضی میں جتنی بھی انہوں نے زکاۃ دی ہے اس کے بارے میں ان کی بات معتبر ہوگی، اور اس کی تفتیش کرنے یا ان کی بات مسترد کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم اگر غالب گمان یہ ہو کہ ان سے کبھی غلطی سر زد ہوئی ہے یا سابقہ سالوں میں کسی سال زکاۃ ادا نہیں کی، تو آپ اپنے والد سے پیار کے ساتھ بات کریں کہ وہ زکاۃ ادا کر دیں یا آپ ان کے مال میں سے زکاۃ دے دیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب