سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شفاف ناخن پالش کا وضو پر اثر

سوال

بہت سی مسلم خواتین ایک خاص ناخن پالش کا استعمال کرتی ہیں؛ کیونکہ انکے مطابق اس پالش کے استعمال کرنے پر ناخن تک پانی پہنچتا ہے، تو انہیں یہ بھی سننے کو ملا کہ یہ ناخن پالش حلال ہے، اور بڑی آسانی سے اسے استعمال بھی کرتی ہیں، لیکن مجھے چیدہ چیدہ خواتین ہی ایسی ملی ہیں جنہوں نے اسے استعمال کیا ہے، اور وہ اسکے حلال ہونے کا دعوی بھی کرتی ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ : کیا یہ پراڈکٹ واقعی حلال ہے؟ کہ اس پر وضو بھی ٹھیک ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر ناخن پالش - چاہے کسی بھی نام سے ہو اور کسی بھی جگہ سے بنی ہو- صرف رنگ ہے، اسکی تہہ ناخن پر نہیں بنتی، یعنی ناخن تک پانی سرائیت کرسکتا، اور اسکا ناخن پر چھلکا سا نہیں بنتا تو ایسی حالت میں وضو درست ہوگا، اسے ہٹانا ضروری نہیں۔

اور اگر پالش کی ناخن پر تہہ بن جاتی ہے، اور اسکی بنا پر ناخن تک پانی نہیں پہنچتا تو پھر وضو سے پہلے اسے اتارنا ضروری ہے، کیونکہ وضو درست ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ وضو والے سارے عضو پر پانی پہنچے، اور درمیان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

ہمارے پاس سوال میں مذکور ناخن پالش کے اجزائے ترکیبی ، اور کیفیت کے بارے میں مکمل طور پر معلومات نہیں ہیں، اسی طرح ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کس طرح بنائی جاتی ہے، اور اس پالش کو بنانے والی کمپنی ناخن تک پانی پہنچنے کی وضاحت کیسے کرتی ہے؛ کہ ناخن تک پانی پہنچتا ہے یا صرف نمی پہنچتی ہے، لیکن ہمیں کافی حد تک یقین ہے کہ اس پالش کی وجہ سے ناخن تک پانی نہیں پہنچتا ہوگا۔

چنانچہ اگر صرف نمی ناخن تک پہنچتی ہے تو یہ وضو کیلئے کافی نہیں ہے؛ کیونکہ وضو کیلئے اعضاء پر پانی بہنا شرط ہے، صرف نمی پہنچنا کافی نہیں ہے، ایسے ہی تھوڑی سی جگہ کو بھی جان بوجھ کر خشک رکھنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ چند صحابہ کرام سے بیان کیا کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا ، اور اس کے پاؤں میں درہم کےبرابر جگہ خشک تھی جہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو اور نماز دوبارہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا"

چونکہ ہم خود مذکورہ پالش کو نہیں جانتے، اور نہ ہی ہمارے تجربے یا مشاہدے سے اسکا گزر ہوا ہے تو ہم پہلے ذکر شدہ شرعی قاعدہ بیان کرنے پر ہی اکتفا کریں گے اور اس بارے میں تطبیق اہل تخصص کیلئے چھوڑتے ہیں کیونکہ وہ اس پالش کی ماہیت ، اور اجزائے ترکیبی کے بارے میں زیادہ اچھی طرح بتلا سکتے ہیں، چنانچہ اس کے متعلق اہل تخصص ، دیندار اور قابل اعتماد لوگوں سے پوچھنا زیادہ بہتر ہوگا۔

اور اگر فرض کریں کہ اس قسم کی پالش پانی کیلئے رکاوٹ نہیں بنتی تو اس طرح کی پالش کو "اسلامی پالش" کہہ کر کھلے عام لگا کر پھرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ یہ زینت ہے، اور غیرمحرم مردوں کے سامنے اظہار زینت جائز نہیں ہے۔

مزید تفصیلات کیلئے سوال نمبر: (103738) اور (20728) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب