سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اگر رمضان کے شروع ہونے کے متعلق دن کے وقت معلوم ہوا تو اب ان پر کیا واجب ہے؟

سوال

سوال:اگر لوگوں کو ماہِ رمضان کی ابتداء کا دن کے وقت علم ہو تو کیا باقی دن مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ]سے رک جائیں؟ اور اگر رک جائیں تو کیا ان پر قضا بھی ہوگی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر لوگوں کو رمضان کے شروع ہونے کا علم دن کے وقت جاکر ہو، تو دن کے باقی حصہ میں مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے رکنا واجب ہے، اسکے درج ذیل دلائل ہیں:

1- فرمان باری تعالی کا ترجمہ: (جو کوئی بھی تم میں سے اس ماہ میں حاضر ہو تو وہ روزہ رکھے) سورہ البقرہ/ 185

2- بخاری :(1900) اور مسلم: (1080) نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: (جب بھی تم اسے دیکھو تو روزہ رکھ لو)، چنانچہ اس روایت میں روزوں کی فرضیت رؤیت پر ہے، اور صورت مسئلہ میں چاند دیکھا جا چکا ہے ، اس لئے روزہ رکھنا واجب ہوگا۔

3- بخاری (2007) ہی میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم قبیلے کے آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں میں نیلامی کردے:(جس نے کچھ کھا پی لیا ہے، تو وہ بقیہ دن میں روزہ رکھ لے، اور جس نے کچھ بھی نہیں کھایا تو وہ بھی روزہ رکھ لے، آج کا دن عاشوراء کا دن ہے)

جبکہ قضا کے واجب ہونے کے متعلق علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں، کچھ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ: اس دن کچھ کھانا پینا بھی نہیں ہے، اور قضا بھی لازمی دینی ہے، اور اس کے لئے دلیل جامع ترمذی (730) کی روایت کو بنایا ، جو کہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہیں کی اسکا کوئی روزہ نہیں )اس روایت کو البانی نے صحیح سنن ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

ان علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: صورت مسئلہ میں رات کے وقت سے روزے کی نیت نہیں ہوئی، اس لئے یہ روزہ صحیح نہیں ہوگا، اور اس دن مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے اس لئے رکنا ہے تا کہ رمضان کا احترام ہوسکے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ماہ شعبان سمجھتے ہوئے صبح کے وقت روزہ نہیں رکھا، اور رؤیت کی بنا پر ثابت ہوگیا کہ رمضان شروع ہوگیا ہے، تو اس پر باقی دن مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے رکنا، اور بعد میں قضا دینا اکثر فقہائے کرام کا موقف ہے"انتہی

" المغنی" (3/34)

شیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر دن کے وقت رمضان کا چاند نظر آنے کی دلیل مل جائے تو روزہ رکھنے کے اہل افراد پر مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے رکنا ضروری ہوجائے گا، اگرچہ دن کی ابتداء میں انکا روزہ نہیں تھا؛ کیونکہ [لا علمی کیوجہ سے] سب لوگ روزہ نہیں رکھ پائے تھے، اس لئے جس قدر وہ عمل کرسکتے ہیں اتنی مقدار میں عمل کرنا ان پر واجب ہوگیا، اسکی دلیل اس حدیث میں ہے (جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو)۔۔۔، اور ان لوگوں پر قضا بھی لازم ہوگی؛ کیونکہ رمضان شروع ہوچکا تھا، اور انہوں نے اس دن میں صحیح روزہ نہیں رکھا، اس لئے ان پر شرعی نص کی وجہ سے قضا لازم ہوگی"انتہی

" كشاف القناع " (2/310)

اس مسئلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ: [اس دن]مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے رکنا منع ہے، لیکن قضا لازمی نہیں ہوگی، اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنایا ہے۔

اس موقف کی دلیل سلمہ بن اکوع کی یوم عاشوراء کے متعلق گذشتہ روایت میں ملتی ہے، چنانچہ جن لوگوں نے یوم عاشوراء کی ابتداء میں کھا پی لیا تھا ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اس دن کی قضا دی تھی، حالانکہ ابتدائے اسلام میں یومِ عاشوراء کا روزہ واجب تھا۔

اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ: روزے سے کفایت نہ کرنے کے باوجود مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے وجوباً روکنا، اور بعد میں اسکی قضا کا حکم دینا ، مکلف پر بغیر دلیل کے اضافی بوجھ ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر دن کے وقت رؤیت ہلال کے متعلق دلائل مل جائیں تو بقیہ دن میں روزہ رکھ لے، اور اس پر قضا بھی لازم نہیں ہوگی، چاہے ابتدائے دن میں کھا پی لیا ہو"انتہی

" الفتاوى الكبرى " (5/376)

اور مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"شیخ تقی الدین کا کہنا ہے کہ: [بقیہ دن میں]مفطرات سے رک جائے، اور اس پر قضا نہیں ہوگی، اور اگر رؤیت ہلال کے بارے میں اسے غروب آفتاب کے بعد ہی علم ہوا تو بھی اس پر قضا نہیں ہوگی"انتہی

" الإنصاف " (3/283)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

مصنف کاقول: "دن کے وقت دلیل ثابت ہوجائے، تو رُکنا، اور بعد میں قضا دینا ہر اس شخص پر واجب ہوگا جس پر اِس دن روزہ رکھنا فرض ہے "

مصنف کے قول: " دلیل " سے مراد یہ ہے کہ ماہِ رمضان شروع ہونے کے بارے میں دلائل مل جائیں، گواہوں کی صورت میں یا ماہِ شعبان کے تیس دن مکمل ہونے کی صورت میں۔

مصنف کا قول: " رُکنا واجب ہوگا" یعنی روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء سے رکنا واجب ہوگا۔

اسکی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا ، صحابہ کرام اسی وقت مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے رُک گئے تھے، اور [دوسری دلیل یہ ہے کہ] جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ دن رمضان کا دن ہے تو مفطرات [روزہ ٹوٹنے کا باعث بننے والی اشیاء ] سے رکنا ضروری ہوگیا۔

مصنف کا قول: " قضا دینا " یعنی اس دن کی قضا دینا ہوگی جس دن کے درمیان میں رمضان شروع ہونے کے دلائل ملے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ: روزہ صحیح ہونے کیلئے شرط ہے کہ روزے کی نیت پورے دن میں ہونی چاہئے، اس لئے نیت فجر سے پہلے ہونی ضروری ہے ، جبکہ اس دن نیت درمیان میں شروع ہو رہی ہے، چنانچہ انہوں نے مکمل دن کا روزہ نہیں رکھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کیلئے وہی ہوگا جسکی اس نے نیت کی)

جس دن کے دوران [رمضان شروع ہونے کے]دلائل ملے ہوں اس دن کے روزہ کی قضا واجب ہے، یہی اکثر علمائے کرام کی رائے ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" روزہ توڑنے والی اشیاء سے رکنا واجب ہے، قضا واجب نہیں ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ : دلائل ملنے سے قبل انکا کھانا پینا جائز تھا، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کیلئے حلال قرار دیا ہے، اس لئے انہوں نے ماہِ رمضان کی حرمت پامال نہیں کی، بلکہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ رمضان شروع ہوچکا ہے، انہوں نے اصل کو بنیاد بنایاکہ ابھی شعبان باقی ہے، چنانچہ ان لوگوں کاشمار فرمانِ باری تعالی کے عموم میں ہوگا:

ترجمہ: (اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں، یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمارا مؤاخذہ مت کرنا)البقرہ/ 286

چنانچہ ان لوگوں کا حال ویسا ہی ہے جیسے اس شخص کا ہوتا ہے جو رات سمجھ کر [سحری کیلئے ]کھاتا رہتا ہے، پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ فجر تو طلوع ہوچکی ہے، یا اس شخص کی طرح ہے جو غروب آفتاب سمجھ کر کھا لیتا ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا، اور صحیح بخاری میں اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ وہ کہتی ہیں: "ہم نے عہد نبوی میں ابر آلود دن کو روزہ افطار کرلیا، پھر سورج طلوع ہوگیا" اور ان صحابہ کرام سے یہ منقول نہیں ہے کہ انہیں قضا کا حکم بھی دیا گیا ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے فجر سے قبل نیت نہ کرنے کا جواب یوں دیا ہے کہ: نیت اصل میں علم کے تابع ہوتی ہے، لیکن انہیں تو ماہِ رمضان کی ابتداء کا علم ہی نہیں ہوا، اور جس چیز کا انہیں علم ہی نہیں ہے وہ انکی طاقت سے بھی باہر ہے، جبکہ اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، چنانچہ اگر یہی لوگ ماہِ رمضان شروع ہونے کے بارے میں سن کر فوراً نیت نہ کریں، اور روزے کی نیت میں تاخیر کردیں تو انکا روزہ درست نہیں ہوگا۔

[شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ] کہتے ہیں: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا جواب ، اور توجیہ بہت قوی ہے، لیکن انکے موقف پر دل مطمئن نہیں ہوتا، اور ایسے لوگوں کو اس شخص پر قیاس کرنا جو یہ سمجھ رہا تھا کہ رات باقی ہے، یا سورج غروب ہوچکا ہے، اس پر مزید بحث کی جاسکتی ہے، کیونکہ اِس شخص کی روزے کی نیت تھی، لیکن اس نے اس لئے کھایا کہ رات ابھی باقی ہے، یا رات شروع ہوچکی ہے"انتہی

" الشرح الممتع " (6/332-333)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ: جس شخص کو رمضان شروع ہونے کی اطلاع مل جائے، چاہے دن کے وقت ہی ملے اس پر روزہ توڑنے والی اشیاء سے بچنا ضروری ہے، لیکن اس دن کی قضا کے بارے میں علمائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے۔

موجودہ زمانے میں اس قسم کے مسائل ہوسکتا ہے کہ بہت ہی کم ہوں کیونکہ رابطے کیلئے وسائل بہت ہی ترقی کرچکے ہیں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب