الحمد للہ.
اول:
احتلام مرد و خواتین کی جنسی قوت زائل کرنے کا سبب بنتا ہے، یہ انسان کے کنٹرول میں نہیں ہوتا، اور انسانی طبیعت کے مطابق دوران نیند احتلام ہوتا ہے، اس پر انسان کیلئے کوئی مؤاخذہ بھی نہیں کیا جاسکتا؛ کیونکہ سویا ہوا شخص قابل باز پرس نہیں ہے، اور اسکا تفصیلی بیان فتوی نمبر: (9208) میں گزر چکا ہے۔
دوم:
اگر رمضان میں دن کے وقت منی احتلام کی وجہ سے خارج ہوئی ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ یہ معاملہ انسانی طاقت سے باہر ہے، اور انسان اسے روک نہیں سکتا، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا)۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر احتلام ہوجائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ یہ انسانی اختیار میں نہیں ہوتا، تو یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سوئے ہوئے آدمی کہ حلق میں کوئی چیز داخل ہوجائے" انتہی
"المغنی از ابن قدامہ" (3 /128)
دائمی فتوی کمیٹی سے بھی ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جسے رمضان میں دن کے وقت احتلام ہوگیا، تو اسکا کیا حکم ہے؟
تو کمیٹی نے جواب دیا:
"جس شخص کو روزے یا حج و عمرہ کی حالت میں احتلام ہوجائے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی کفارہ ہے، احتلام سے اسکا روزہ بھی متأثر نہیں ہوگا، اور منی خارج ہونے کی صورت میں غسل جنابت کرنا ہوگا"انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " (10 /274)
سوم:
اور اگر رمضان میں دن کے وقت منی جاگتے ہوئے کامل ہوش وحواس کیساتھ مشت زنی کی وجہ سے خارج ہوئی ہو تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنا بھی لازمی ہوگا۔
1- مشت زنی حرام کام ہے، جیسے کہ فتوی نمبر: (329) میں گزر چکا ہے، اور آپکو رمضان میں دن کے وقت مشت زنی کا ارتکاب کرنے سے بھی توبہ کرنی ہوگی، کیونکہ اس جرم سے روزے کی حرمت کو پامال کیا گیا ہے، اور توبہ کرنے بعد اس دن کے بدلے میں ایک اور روزہ قضا کے طور پر رکھنا ہوگا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزہ رکھ کر عمدا مشت زنی سے منی خارج ہونے پر روزہ باطل ہوجائے گا، چنانچہ فرض روزہ ہونے کی صورت میں قضا اور اللہ سے گناہ پر توبہ کرنا لازم ہوگی، کیونکہ مشت زنی روزہ ہو یا نہ ہو، ہر حالت میں ناجائز ہے، اسی کو [عرب]لوگ "عادہ سریہ" کہتے ہیں"انتہی
" فتاوى الشيخ ابن باز "( 267 /15 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزہ دار مشت زنی کرے تو انزال ہونے پر روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اس پر اِس دن کی قضا دینا لازمی ہوگا، لیکن اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے، کیونکہ کفارہ صرف جماع کی صورت میں ہی واجب ہوتا ہے، اور اسے اپنے گناہ سے توبہ بھی کرنا ہوگی"انتہی
" فتاوى أركان الإسلام " ص 478
صورت مسئلہ میں سائل کیلئے معاملہ پیچیدہ ہوگیا ہےکہ اسے نہیں معلوم کہ منی احتلام کی وجہ سے خارج ہوئی ہے یا مشت زنی کی وجہ سے، تو ایسی صورت حال میں احتلام ہی کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ سوئے ہوئے شخص کے بارے میں اصل یہی ہے کہ وہ بری الذمہ ہے، اور مکلف بھی نہیں ہے، چنانچہ اسی اصول پر عمل کیا جائے گا، اور اس اصول کی تردید یقینی بات سے ہی ہوسکتی ہے[قیاس آرائی سے نہیں ہوگی]۔
بلکہ اگر منی نیند کے دوران آلہ تناسل کیساتھ چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے بھی خارج ہوئی ہو تب بھی حکم تبدیل نہیں ہوگا؛ کیونکہ سوئے ہوئے شخص کا کوئی بھی عمل قابل مؤاخذہ نہیں ہے، کیونکہ سویا ہوا شخص مکلف ہی نہیں ہوتا۔
چنانچہ شمس الدین الاصفہانی کہتے ہیں:
"میت، سویا ہوا شخص ، اور غافل تینوں کے مرفوع القلم [یعنی :ناقابلِ مؤاخذہ]ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لئے کہ عقلی طور پر ہم جانتے ہیں کہ مکلف ٹھہرانے کی شرط: "عقلمندی" ہے، چنانچہ جس طرح میت مکلف نہیں ہوتی، اسی طرح سویا ہوا یا غافل شخص بھی مکلف نہیں ہوسکتا"انتہی
" بيان المختصر شرح مختصر ابن الحاجب " (2 / 491)
واللہ اعلم .