الحمد للہ.
جنبی کے لیے نماز ، طواف ، اورمسجد میں ٹھرنا اورقرآن مجید کی تلاوت اوراسے پکڑنا حرام ہے ، لیکن اس کے علاوہ باقی کام کرنے جائز ہيں ۔
لھذا عورت پر کوئي حرج نہيں کہ وہ جنبی حالت میں کھانا تیار کرلے یا پھر گھر کے دوسرے کام کاج نپٹانے بھی جائز ہيں اوراسی طرح بچوں کی دیکھ بھال بھی کرسکتی ہے اس کی کئي ایک دلیل موجود ہیں :
ا - ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ایک راستے میں ملے تومیں جنبی حالت میں تھا اس لیے وہاں سے کھسک گیا اورجاکر غسل کیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی کہاں تھے ؟
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں میں نے کہا : میں جنبی تھا اس لیے میں نے ناپسند کیا کہ ناپاکی کی حالت میں آپ کے ساتھ بیٹھوں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : سبحان اللہ ، مسلمان تونجس نہيں ہوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 279 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 371 ) ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں :
اس میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ غسل جنابت کو اس کے واجب ہونے کے اول وقت میں تاخیر کی جاسکتی ہے ۔۔۔ اوراس کا بھی جواز ہے کہ جنبی شخص اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے ۔
دیکھیں فتح الباری لابن حجر ( 1 / 391 ) ۔
لیکن افضل یہ ہے کہ جنبی شخص کو غسل جنابت میں جلدی کرنی چاہیے کہ کہیں وہ غسل کرنا بھول ہی نہ جائے ، اوراگر کھانے پینے اور سونے سے قبل وہ جنابت کی حالت میں وضوء کرلے تویہ بہتر اور افضل ہے ، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وضوء کرنا واجب نہیں بلکہ یہ ناپاکی میں کمی کے لیے ہے اوروضوء کرنا مستحب ہے ، اس کے بارہ میں کچھ احاديث مروی ہيں :
ا - عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر جنبی حالت میں کھانا یا سونا چاہتے تونماز کےوضوء کی طرح وضوء کرتے تھے ۔
صحیح مسلم شریف حدیث نمبر ( 305 ) ۔
ب - ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئي ایک جنابت کی حالت میں ہی سوسکتا ہے ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا :
جب تم میں سے کوئي وضوء کرلے تو وہ جنبی حالت میں سوسکتا ہے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 283 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 306 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اس حدیث میں اس بات کا استحباب پایا جاتا ہے کہ جنبی شخص ان سب کاموں کے لیے اپنی شرمگاہ کودھوئے اوروضوء کرے ، اورخاص کرجب وہ اپنی دوسری بیوی سے جماع کرنا چاہے جس سے جماع نہيں کیا اس کے لیے اپنے عضوتناسل کو دھونا یقینا مستحب ہے ۔
ہمارے ہاں اس وضوء کے واجب نہ ہونے میں کوئي اختلاف نہیں ، امام مالک اورجمہورعلماء کرام کا بھی یہی کہنا ہے ۔
دیکھیں : شرح مسلم للنووی ( 3 / 217 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جنبی شخص جب کھانا پینا یا پھر سونا اوردوبارہ جماع کرنا چاہے تواس کےلیے وضوء کرنا مستحب ہے ، لیکن بغیر وضوء کیے سونا مکروہ ہے ، اس لیے کہ صحیح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا کہ آيا ہم میں کوئي ایک جنبی حالت میں سوسکتا ہے ؟
تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جی ہاں جب وہ نماز کے وضوء کی طرح وضوء کرلے توسوسکتا ہے ۔۔
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری لابن تیمیہ ( 21 / 343 ) ۔
آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 6533 ) کے جواب کا ضرور مطالعہ کریں ۔
واللہ اعلم .