الحمد للہ.
مسلمان كےليے كتابي يہودي يا عيسائي عورت جبكہ وہ عفمت وعصمت والي ہو تواس سے شادي كرني جائز ہے جيسا كہ اللہ تعالي كا فرمان ہے :
اور اہل كتاب ميں سے پاكدامن عورتيں.
ليكن يہ ايسا معاملہ ہے جس كي نصيحت نہيں كي جاتي اور خاص كرجب مسلمان كفار ممالك ميں ان كے قوانين اور كفريہ نظام كے تحت زندگي بسر كررہا ہو .
اور مسلمان عورت كےليےتو كسي بھي حالت اور صورت ميں كافر مرد سے شادي كرني جائزنہيں نہ توكتابي مرد سے اور نہ ہي كسي اوركافر سے چاہے وہ عفت وعصمت كا مالك ہو يا نہ ہو كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:
نہ تويہ عورتيں ان كےليےحلال ہيں اور نہ ہي وہ مرد ان عورتوں كے ليے حلال ہيں .
اور عصر حاضركےعيسائي جب تك عيسي عليہ السلام كي طرف منسوب ہوتےاور ان كي تعظيم كرتے اور ان كي اتباع كا دعوي كرتےہيں تو وہ اہل كتاب ميں سےہيں اور ان پر قرآن وسنت ميں وارد شدہ اہل كتاب كےاحكام لاگوہونگے ليكن اس كےساتھ ہمارا يہ اعتقاد ہے كہ كافر اور گمراہ لوگ ہيں .
اور جب كسي مسلمان بچے نے كسي كافرہ عورت سے شادي كرلي ہو اور جب تك وہ مسلمان ہے اور دائرہ اسلام سےخارج نہيں ہوا ، اور نہ ہي اس نے كفرواجب كرنےاور دين سے خارج كرنے والا كام كيا ہے تووالدين ميں سے كسي ايك كوبھي كوئي حق نہيں كہ وہ اسے وراثت سے محروم كريں .
اور جس نے بھي كوئي ايسا اقدام كيا جس كي بنا پر مسلمان وارث اس كي وراثت سے محروم ہو تو اس نے اللہ تعالي كي حدود سےتجاوز كيا اور وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ہوا .
اور اللہ تعالي جوچاہتا ہے حكم كرتا ہے اور جوچاہے وہي كرتا ہے .
واللہ اعلم .