اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بے آباد زمین کوآباد کرنے کا حکم

21375

تاریخ اشاعت : 21-02-2004

مشاہدات : 15886

سوال

بے آباد زيمن کوآباد کرنا کیا ہے اوراس کے احکام کیا ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

الموات : میم اور واو کے فتح کے ساتھ : موات اسے کہتے ہیں جس میں روح نہ ہو لیکن یہاں پر وہ زمین مراد ہے جس کا کوئ مالک نہ ہو ۔

فقھاء رحمہم اللہ تعالی اس کی تعریف یہ کرتے ہیں :

ایسی زمین جوکسی اختصاص اورملکیت سے عاری وخالی ہو ۔

تواس تعریف سے دوچيزیں خارج ہوجاتی ہیں :

اول :

جوکسی کافر یا مسلمان کی خرید اوریا پھر عطیہ وغیرہ کی بنا پر ملکیت بن جاۓ ۔

دوم :

جس کے ساتھ ملک معصوم کی کوئ مصلحت وابستہ ہو ، مثلا راستہ ، سیلابی پانی وغیرہ کی گزرگاہ ۔

یاپھرکسی شہرکے آباد کاروں کی اس کے ساتھ مصلحت کا تعلق ہو ، مثلا : میت دفن کرنے کیے لیے قبرستان ، یا پھر گندگی وغیرہ پھینکنے کی جگہ ، یا پھر عیدگاہ اورلکڑیاں وغیرہ کی جگہ اورچراگاہ وغیرہ ۔

تواس طرح کی زمین آباد کرنے سے بھی کسی کی ملکیت میں نہیں آسکتی

لیکن جب کسی زمین میں یہ دونوں چیزیں یعنی ملکیت معصوم اوراس کا اختصاص نہ پایا جاۓ اورکوئ شخص اسے آباد اورزندہ کرلے تووہ زمین اسی کی ملکیت میں آجاۓ گی ۔

جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے بھی کوئ زمین زندہ کی تووہ اسی کی ہے ) مسند احمد اورامام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح کہا ہے ، اسی معنی کی احادیث اوربھی وارد ہیں اورکچھ توصحیح بخاری میں بھی موجود ہیں ۔

اورعمومی فقھاء امصار کہتے ہیں کہ موات وہ بے آباد زمین کسی کے آباد کرنے سے ملکیت میں آجاتی ہے ، اگرچہ فقھاء نے شروط میں اختلاف کیا ہے ، لیکن حرم اورمیدان عرفات کی بے آباد زمین آباد کرنے سے بھی ملکیت میں نہيں آسکتی ۔

اس کا سبب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے مناسک حج کی ادائيگي میں تنگی ہوگی اوروہاں پر لوگوں کی جگہوں پرقابض ہونا برابر ہے ۔

احیاء ارض یعنی زمین کی آبادکاری مندرجہ ذيل امور سے حاصل ہوگی :

اول :

جب کوئ زمیں کے ارد گرد چاردیواری کرلے جوکہ عادتا معروف تواس نے اسے آباد کرلیا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :

( جس نے زمین پر چاردیواری کرلی وہ اسی کی ہے ) مسند احمد ، سنن ابوداود ، اورابن الجارود رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اس کے علاوہ سمرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے ۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ چاردیواری سے ملکیت کا مستحق ہوجاتا ہے ۔

اورچاردیواری کی مقدار وہ ہوگی جولغت میں دیوار معروف ہے لیکن اگر اس نے کسی بے آباد زمین کے گرد پتھر یا پھر مٹی اکٹھی کی یا چھوٹی سی دیوار بنالی جواس سے آگے روک بھی نہ لگا سکے یا پھر کسی نے زمین کے گرد خندق کھود لی تواس سے وہ اس کی ملکیت نہیں بن سکتی ۔

لیکن اس کی وجہ سے وہ اسے آباد کرنے کا دوسروں سے زيادہ حقدار ہوگا اس لیے کہ اس نے اسے آباد کرنا شروع کردیا ہے ۔

دوم :

اگرکسی نے بے آباد زمین میں کنواں کھود لیا اورپانی نکل آیا تواس نے بھی اس زمین کوآباد کرلیا ، لیکن اگر وہ کنواں کھودتا ہے اورپانی تک نہیں پہنچتا تواس کی بنا پروہ اس کا مالک نہیں بن سکتا ، بلکہ وہ اسے اس کے احیاء کادوسروں سے زياد حقدار ہے ، اس لیے کہ اس نے احیاء کی ابتدا کرلی ہے ۔

سوم :

جب اس نے اس بے آباد زمین میں کسی چشمے یا پھر نہر کا پانی پہنچا دیا تواس نے اس کی وجہ سے اس زمین کا احیاء کرلیا ، اس لیے کہ زمین کے لیے پانی دیوار سے زيادہ نفع مند ہے ۔

چہارم :

جب کسی نے زمین میں کھڑے ہونے والے پانی کواس سے روک دیا جس پانی کے کھڑے ہونے کی بنا پر وہ کاشت کے قابل نہیں رہتی تھی ، وہ پانی وہاں سے روک دیا حتی کہ وہ کاشت کے قابل ہوگئ تواس نے زمین کا احیاء کرلیا ۔

اس لیے کہ یہ کام زمین کے لیے ملکیت کی دلیل میں مذکور دیوار سے بھی زيادہ نفع مند ہے ۔

اورکچھ علماء کرام کہتے ہیں کہ بنجر زمین کا احياء صرف انہی امور پر موقوف نہیں بلکہ اس میں عرف کا اعتبار ہوگا جسے عرف عام میں لوگ احیاء شمار کریں گے اس کی بنا پروہ زمین کا مالک بھی بنے گا ۔

آئمہ حنابلہ اور دوسروں نے یہی مسلک اختیار کیا ہے اس لیے کہ شرع نے ملکیت کی تعلیق لگائ ہے اوراسے بیان نہیں کیا تو اس طرح عرف عام میں جسے احیاء کہا جاۓ اسی کی طرف رجوع ہو گا ۔

مسلمانوں کے امام اورامیر یا خلیفہ کویہ حق حاصل ہے کہ وہ بنجر زمین کسی کو دے دے تا کہ وہ اسے آباد کرے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بلال بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کوعقیق میں جاگیر عطا کی تھی اوروائل بن حجر رضي اللہ تعالی عنہ کوحضرموت میں عطا کی اوراسی طرح عمر اورعثمان اوربہت سے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کوعطا کی تھی ۔

لیکن صرف جاگیر مل جانے سے ہی وہ مالک نہیں بن جاۓ گا بلکہ وہ اس دوسرے سے زيادہ حقدار ہے لیکن جب اسے آباد اوراسکا احیاء کرے گا وہ اس کی ملکیت بن جاۓ گی اوراگر وہ اس کا احياء اوراسے آباد نہ کرسکا توخلیفہ یا امیرالمسلمین کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اس سے واپس لے لے اورکسی دوسرے کوعطا کردے جو اسے آباد کرنے کی طاقت رکھتا ہو ۔

اس لیے کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے ان لوگوں سے جاگير واپس لے لی تھی جو اسے آباد نہیں کرسکے تھے ۔

اورجوکوئ بنجر زمین کے علاوہ کسی اورغیرمملوک چيز کی طرف سبقت لے جاۓ اورپہلے پہنچے مثلا شکار یا جلانے والی لکڑي تووہ اس کا زيادہ حقدار ہے ۔

اوراگرکسی کی زمین سے غیر ملکیتی پانی گزرتا ہو مثلا نہر یا وادی کا پانی توسب سے اوپر والے یعنی پہلے کوحق حاصل ہے کہ وہ پہلے اپنی زمین کوسیراب کرے اوراس میں ٹخنوں تک پانی کھڑا کرے پھر اپنے بعد والے کوپانی بھیجے ۔۔۔۔ اوراسی طرح درجہ بدرجہ ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اے زبیر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) تم اپنی زمین سیراب کرو اورپھر پانی کودیوار ( وہ رکاوٹ جوکھیتوں کے کنارے بنائ جاتی ہے ) تک روکو ) صحیح بخاری اورصحیح مسلم ۔

اورعبدالرزاق نے معمر اورزھری رحمہم اللہ سے ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( پھر تم پانی کوروکو حتی کہ وہ دیواروں تک آ جاۓ ) کا اندازہ لگایا اوراسے ماپا تو وہ ٹخنوں تک تھا ۔

یعنی جوکچھ قصہ میں بیان ہوا ہے اس کوماپا توانہوں نے وہ پانی ٹخنوں تک پہنچتے ہوۓ پایا ، توانہوں نے اسے معیار بنا دیا کہ پہلے کا اتنا ہی حق ہے اورپھر اس کے بعد والے کا بھی اتنا ہی ۔

عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیل مھزور میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ( سیل مھزورمدینہ کی ایک وادی کا نام ہے ) :

سب سے پہلے والا پانی کو ٹخنوں تک روکے اورپھر اپنے بعد والے کی زمین میں چھوڑ دے ) سنن ابو داود وغیرہ

لیکن اگرپانی ملکیتی ہو تو پھر ان سب مشترکین کے درمیان ان کی املاک کے حساب سے تقسیم ہوگا اورہر ایک اپنے حصہ میں جوچاہے تصرف کرسکتا ہے ۔

اورامام المسلمین کو حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کے بیت المال مواشیوں کے لیے ایک چراگاہ مقرر کرلے جس میں کوئ اورنہ چراۓ مثلا جہاد کے لیے تیار گھوڑ ے ، اورصدقہ زکاۃ کے اونٹ وغیرہ ، اگرمسلمانوں کواس سے تنگی نہ ہوتی ہو ۔

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے النقیع نامی چراگاہ کومسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مقرر اورخاص کیا تھا ) ۔

اورامام المسلمین کے لیے جائز ہے کہ وہ بے آباد زمین کی گھاس کوزکاۃ کے اونٹوں اورمجاھدین کے گھوڑوں اورجزیہ کے جانوروں کے لیے خاص کردے اگر اس کی ضرورت محسوس ہو اورمسلمانوں کو اس میں تنگ نہ کرے ۔ .

ماخذ: الملخص الفقھی تالیف شیخ صالح الفوزان ۔