الحمد للہ.
اول:
نکاحِ شغار یا عام لوگوں کی اصطلاح میں جسے وٹہ سٹہ کہتے ہیں شریعت اسلامیہ نے اسے حرام قرار دیا ہے اور اس سے منع بھی کیاہے؛ کیونکہ اس میں خواتین کے حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان پر ظلم ہوتا ہے، نیز حقِ ولایت میں غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے۔
چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام میں وٹہ سٹہ نہیں ہے) مسلم: (1415)
اسی طرح جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وٹہ سٹہ سے منع فرمایا" مسلم: (1417)
دوم:
وٹہ سٹہ کی تین صورتیں ہیں:
1- ایک شخص دوسرے کی عزیزہ یا اُس کی ولایت میں کسی لڑکی سے شادی کر ے اور دوسرا اس کی عزیزہ یا زیر ولایت کسی لڑکی سے شادی کر ے لیکن اس کیلیے وہ ایک دوسرے کو اپنی عزیزہ کا نکاح دینے کی شرط نہ لگائیں اور نہ ہی کسی کی شادی دوسرے کی شادی کے ساتھ مشروط ہو، نیز دونوں کیلیے الگ الگ حق مہر بھی مقرر کیا جائے، تو یہ صورت وٹہ سٹہ میں شامل نہیں ہوتی، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی –پہلا ایڈیشن- ( 18/427 ) میں ہے کہ:
"ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کی زیرِ ولایت لڑکی کیلیے شادی کا پیغام بھیجا اور پھر دوسرے نے بھی پہلے شخص کی زیرِ ولایت لڑکی کیلیے شادی کا پیغام بھیج دیا اور دونوں کے مابین وٹہ سٹہ کی شرط نہیں تھی ، اس پر دونوں لڑکیوں کی کامل رضا مندی سے ان کا نکاح دیگر تمام شرائطِ نکاح کے ساتھ ہو گیا اور دونوں کا الگ الگ حق مہر بھی مقرر تھا تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ متفقہ طور پر نکاحِ شغار یعنی وٹہ سٹہ میں شامل نہیں ہوتا" انتہی
2- مذکورہ بالا صورت کے بر خلاف شادی اس شرط پر ہو کہ ہر ایک دوسرے کو اپنی زیرِ کفالت لڑکی کا نکاح دے گا، اور حق مہر بھی نہیں ہو گا، یعنی کہ ایک لڑکی کے بدلے میں دوسری لڑکی لی جائے ۔
تو یہ صورت تمام علمائے کرام کے متفقہ فیصلے کے مطابق ممنوعہ صورت ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کی یا جس لڑکی کا بھی وہ ولی ہے اس کی شادی کسی شخص سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی یا اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی اس سے کرے گا اور درمیان میں حق مہر نہ ہو گا ۔یعنی صرف لڑکی کا تبادلہ ہو الگ سے حق مہر مقرر نہ کیا جائے تو یہ وہی وٹہ سٹہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، اس لیے یہ نکاح حلال نہیں ہے اور ایسا نکاح فسخ ہو جائے گا" انتہی
" الأم " (6/198)
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت میں نکاحِ شغار اسے کہتے ہیں کہ:کوئی شخص اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی اس سے کرے گا اور دونوں میں کوئی حق مہر نہیں ہو گا، چنانچہ ایک لڑکی کا جسم دوسری کا حق مہر ٹھہرے گا، وٹہ سٹہ کی شادی کی یہ تعریف امام مالک اور دیگر بہت سے فقہائے کرام نے کی ہے۔" انتہی
" الاستذكار " (5/465)
ابن رشد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نکاحِ شغار یہ ہے کہ : تمام فقہائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر یکساں مسلّم ہے کہ : ایک شخص اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی اس سے کرے گا اور دونوں میں کوئی حق مہر نہیں ہو گا، چنانچہ ایک لڑکی کا جسم دوسری کا حق مہر ٹھہرے گا، یہ بھی سب کے ہاں متفقہ طور پر مسلّم ہے کہ: ایسی شادی ناجائز ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے " انتہی
" بداية المجتهد " (3/80)
نکاح شغار کے جائز نہ ہونے کا حکم بیٹی یا بہن پر ہی نہیں بلکہ اس میں وہ تمام لڑکیاں شامل ہیں جو کسی شخص کی زیرِ ولایت ہو۔
چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھتیجیاں، بھانجیاں، پھوپھی اور چچا کی بیٹیاں نیز لونڈیوں کا بھی وٹہ سٹہ کی شادی میں وہی حکم ہے جو انسان کی اپنی بیٹی کا حکم ہے۔" انتہی
" شرح صحيح مسلم " (9/201)
حنفی علمائے کرام جمہور علمائے کرام کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ شادی حرام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، لیکن حنفی فقہائے کرام شادی کے ہو جانے پراسے برقرار رکھتے ہیں، چنانچہ وہ دونوں لڑکیوں کیلیے مہر مثل واجب ٹھہراتے ہیں ، جس پر ان کا کہنا ہے کہ حق مہر کے آنے سے یہ شغار نہیں رہتا۔
دیکھیں: المبسوط (5/105) ، بدائع الصنائع (2/278)
3- ایک آدمی اپنی بیٹی، بہن یا اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی اس شرط پر کرے کہ فریق ثانی اپنی بیٹی یا زیرِ ولایت لڑکی کی شادی اس سے کرے لیکن اس میں ہر ایک لڑکی کیلیے حق مہر ہو گا چاہے حق مہر برابر ہو یا کم و بیش۔
اس صورت کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے، چنانچہ بعض اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ یہ بھی ممنوعہ صورت ہے؛ کیونکہ صرف یہ شرط لگانا ہی شغار ہونے کیلیے کافی ہے کہ میں اس شرط پر اپنی زیرِ ولایت لڑکی تم سے بیاہ دوں گا کہ تم مجھ سے اپنی زیرِ ولایت لڑکی کو بیاہ دو، یہ ظاہری حضرات کا موقف ہے، نیز اس موقف کو کچھ شافعی اور حنبلی فقہائے کرام نے بھی اپنایا ہے۔
چنانچہ حنبلی فقیہ خرقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی دوسرے سے کر ے گا ، تو یہ نکاح ہی نہیں ہے، چاہے وہ حق مہر مقرر بھی کر دیں" انتہی
" مختصر الخرقی " (ص 238 ) ، اسی طرح دیکھیں: " المحلى " از: ابن حزم (9/118)
اسی موقف کو شیخ ابن باز رحمہ اللہ اور دائمی فتوی کمیٹی نے بھی اپنایا ہے، چنانچہ ان کے فتاوی میں ہے کہ:
"اگر کوئی آدمی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی پہلے سے کرے گا تو یہ نکاحِ شغار ہے ، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، اسی نکاح کو کچھ لوگ نکاحِ بدل سے بھی موسوم کرتے ہیں، یہ فاسد نکاح ہے، چاہے اس میں مہر مقرر کیا جائے یا نہ کیا جائے، چاہے دونوں اس نکاح پر راضی ہوں یا راضی نہ ہوں" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة – پہلا ایڈیشن" (18/427)
ان کی دلیل صحیح مسلم: (1416) کی روایت ہے جسے ابن نمیر عبید اللہ سے وہ ابو زناد سے اور وہ اعرج اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا، اور شغار یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو کہے: تم مجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دو میں تم سے اپنی بیٹی بیاہ دیتا ہوں، یا تم مجھ سے اپنی بہن کی شادی کر دو اور میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کر دیتا ہوں"
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بات یہ ہے کہ ایسی مشروط شادی ہر حالت میں شغار کہلائے گی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کا مطلب یہی بنتا ہے، ویسے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : " اور شغار یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو کہے: تم مجھ سے اپنی بہن کی شادی کر دو اور میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کر دیتا ہوں، یا تم مجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دو میں تم سے اپنی بیٹی بیاہ دیتا ہوں" اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ نکاح شغار اسی وقت ہو گا جب اس میں حق مہر نہ ہو، بلکہ مطلق طور پر اسے نکاحِ شغار قرار دیا گیا ہے۔ " انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز" (20/280)
اسی طرح انہوں نے ایک اور مقام پر یہ بھی کہا ہے کہ:
"نکاحِ بدل جائز نہیں ہے اسے شغار اور وٹہ سٹہ بھی کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں اس سے منع فرمایا ہے، اس لیے شرط لگا کر وٹہ سٹہ کی شادی کرنا جائز نہیں ہے، مثلاً ایک شخص کہے: تم مجھ سے اپنی بہن کی شادی کر دو میں تم سے اپنی بہن کو بیاہ دوں گا، یا تم مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کر دو میں تمہارے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دوں گا، یہ نکاح بدل اور وٹہ سٹہ کی شادی کہلاتا ہے، عربی میں اسے نکاح شغار کہتے ہیں، چاہے اس میں حق مہر بھی ہو ، شرط لگائے جانے کی صورت میں حق مہر برابر یا مختلف کسی بھی انداز میں ہو یہ نکاح جائز نہیں ہو گا" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " لابن باز (21/26)
اس نکاح کو مالکی فقہائے کرام عربی زبان میں"وجہ الشغار" –شغار کی ایک صورت-سے موسوم کرتے ہیں اور ان کے ہاں اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ابھی تک دخول نہیں ہوا تو اسے فسخ کرنا مستحب ہے، لیکن دخول کے بعد اس نکاح کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے، ساتھ میں اکثر فقہائے کرام کے ہاں اس میں مہر مثل ہو گا یا مقرر کردہ مہر ہو گا۔
چنانچہ " التهذيب في اختصار المدونة " (2/132) میں ہے کہ:
"اگر کسی نے ولی کو کہا: مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی 100 درہم کے حق مہر کے ساتھ کر دو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے 100 درہم کے عوض کر دوں گا، یا 50 درہم کہے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے، یہ شغار کی صورتوں میں سے ہے، چنانچہ دخول سے پہلے علم ہو جائے تو فسخ ہو جائے گا، البتہ دخول کے بعد اسے صحیح شمار کیا جائے گا، نیز ہر لڑکی کو مقررہ حق مہر کی بلند ترین مقدار دی جائے گی یا مہر مثل ہو گا، تاہم یہ صورت صریح طور پر شغار نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں حق مہر موجود ہے۔" انتہی
اس کو شغار کی ایک صورت اس لیے کہا جاتا ہے کہ :
"یہ ایک اعتبار سے شغار بنتا ہے اور دوسرے اعتبار سے شغار نہیں ہے؛ کیونکہ ہر لڑکی کو حق مہر دیا جا رہا ہے اس لیے یہ شغار نہیں ہے اور جب حق مہر موجود ہو تو اسے شغار نہیں کہتے، دوسری جانب چونکہ اس میں ایک فریق دوسرے پر بیاہنے کی شرط لگا رہا ہے تو اس اعتبار سے یہ شغار ہے" انتہی
" حاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني " (2/52)
البتہ جمہور اہل علم کے ہاں یہ شغار نہیں ہے: کیونکہ ہر لڑکی کو حق مہر دیا جا رہا ہے۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اگر کوئی شخص اپنی بیٹی یا زیرِ ولایت لڑکی کی شادی کسی مرد سے اس شرط پر کر دے کہ دوسرا شخص پہلے کے ساتھ اپنی بیٹی یا زیرِ ولایت لڑکی کو بیاہ دے گا اور دونوں لڑکیوں کو الگ الگ حق مہر بھی ملے گا مثلاً: پہلی کو کوئی چیز حق مہر میں ملے گی اور اسی طرح دوسری کو بھی کوئی چیز ملے گی چاہے وہ مالیت میں کم یا زیادہ ہو ۔۔۔ تو یہ شغار کی ممنوعہ صورت میں داخل نہیں ہوتا" انتہی
" الأم " (5/83)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر شرط کے ساتھ ولی حق مہر بھی مقرر کریں اور کہیں: میں نے اپنی بیٹی کی شادی تم سے کر دی ہے اس شرط پر کہ تم اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرو اور ہر ایک کا حق مہر 100 درہم ہے یا میری بیٹی کا حق مہر 100 درہم ہے اور تمہاری بیٹی کا حق مہر 50 درہم ہے یا اس سے بھی کم و بیش حق مہر مقرر کیا جائے تو ایسی صورت میں ہمارے علم کے مطابق امام احمد سے واضح لفظوں میں منقول ہے کہ یہ نکاح صحیح ہے۔" انتہی
" المغنی" (7/177)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نکاحِ شغار کی ممانعت کا سبب جاننے کے متعلق اختلاف ہے:
کہا گیا ہے کہ: ایک شادی کو دوسری شادی سے مشروط کہا گیا ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہاں علت یہ ہے کہ ایک لڑکی کو دوسری لڑکی کے عوض میں بیاہ دیا گیا ہے اور اس سے دونوں میں سے کسی لڑکی کو کوئی فائدہ نہیں ہے، یعنی لڑکی کو حق مہر میں کچھ بھی نہیں ملا، بلکہ حق مہر ولی کے مفاد میں چلا گیاکیونکہ ولی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کے عوض بیوی حاصل کر لیتا ہے اور یہ دونوں لڑکیوں کے ساتھ ظلم ہے کہ ان کا نکاح بھی کر دیا جائے اور دونوں میں سے کسی کو بھی حق مہر نہ ملے۔
تاہم اگر شرط کے ساتھ ساتھ حق مہر مقرر کر دیں تو پھر ممانعت کا سبب زائل ہو جائے گااور صرف ایسی شرط باقی رہ جائے گی کہ جس کا نکاح کے درست ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، امام احمد سے یہ صراحت کےساتھ منقول ہے" انتہی
" زاد المعاد في هدي خير العباد " (5/99)
اس کی دلیل بخاری: (5122) مسلم: (1415) میں مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وٹہ سٹہ کی شادی سے منع فرمایا" اور وٹہ سٹہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیٹی کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی پہلے شخص سے کر دے اور ان میں سے کسی کا حق مہر نہ ہو"
اس حدیث کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مجھے علم نہیں ہے کہ وٹہ سٹہ کی تعریف ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جانب سے ہے یا نافع اور امام مالک کی جانب سے ہے" انتہی
" الأم " از: امام شافعی (6/197)
ایک اور جگہ پر ایسے شواہد ہیں کہ وٹہ سٹہ کی یہ تعریف نافع رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
چنانچہ صحیح بخاری: (6960) میں عبید اللہ بن عمر العمری کہتے ہیں کہ مجھے نافع نے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا" اس میں نے نافع سے کہا: "یہ شغار کیا چیز ہوتی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا: "ایک آدمی دوسرے کی بیٹی سے شادی کرے اور اپنی بیٹی اس سے بغیر حق مہر کے بیاہ دے، یا ایک آدمی دوسرے کی بہن سے شادی کرے اور اپنی بہن اس سے بغیر حق مہر کےبیاہ دے"
علامہ جوہری " الصحاح " (2/700) میں کہتے ہیں:
"شغار" شین کے نیچے زیر کےساتھ: دورِ جاہلیت کے نکاح کی ایک قسم ہے، اس میں یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ: تم اپنی بیٹی یا بہن کی شادی مجھ سے اس شرط پر کر لو کہ میں اپنی بیٹی یا بہن کی شادی تم سے کر دوں گا، اس میں ہر لڑکی کا حق مہر دوسری لڑکی کا جسم ہو گا، گویا کہ وہ بغیر حق مہر کے نکاح کر لیتے تھے" انتہی
جبکہ صحیح مسلم کی روایت جسے ابن نمیر عبید اللہ سے وہ ابو زناد سے اور وہ اعرج اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا، اور شغار یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو کہے: تم مجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دو میں تم سے اپنی بیٹی بیاہ دیتا ہوں، یا تم مجھ سے اپنی بہن کی شادی کر دو اور میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کر دیتا ہوں" اس میں بھی وٹہ سٹہ اور شغار کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نہیں ہے، چنانچہ سنن نسائی : (6/112) میں ہے یہ بات واضح ہے کہ وٹہ سٹہ کی تعریف عبید اللہ بن عمر العمری کی بات ہے جو کہ اس حدیث کےایک راوی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعریف نہیں فرمائی۔
لہذا اس بنا پر جو موقف جمہور علمائے کرام نے اپنایا ہے یہ زیادہ قوی اور راجح ہے؛ چنانچہ اگر لڑکی کیلیے مہر مثل مقرر کیا گیا اور خاوند لڑکی کا ہم پلہ بھی تھا اور لڑکی اس پر راضی بھی ہو تو یہ نکاحِ شغار نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح موقف اہل مدینہ یعنی امام مالک وغیرہ کا ہے، اور یہ موقف امام احمد سے بہت سے جوابات میں منقول ہے اور اکثر فقہائے حنابلہ بھی یہی کہتے آئے ہیں کہ نکاح شغار منع ہونے کی علت یہ ہے کہ اس نکاح میں حق مہر نہیں ہوتا۔" انتہی
" مجموع الفتاوى " (34/126)
اسی موقف کو شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے کہ ان سے نکاح بدل کے بارے میں پوچھا گیا کہ اگر میاں بیوی دونوں اس شادی پر راضی ہوں اور اسے مکمل حق مہر بھی ملے تو اس کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے بتلایا گیا ہے کہ دونوں لڑکیوں کو مہر مثل دیا جا رہا ہے، اور ہر ایک اپنے ہونے والے خاوند سے خوش بھی ہے تو ایسی صورت میں اس نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ حرام وٹہ سٹہ میں شمار نہیں ہو گا، اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے" انتہی
" فتاوى شیخ محمد بن ابراہیم " (10/159)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتےہیں کہ:
"اگر حق مہر عام مروجہ حق مہر کے مطابق ہو اور لڑکی شادی پر رضا مند بھی ہو ، نیز لڑکا لڑکی کے ہم پلہ بھی ہو تو یہ شادی صحیح ہے، ہمارے نزدیک یہی حکم صحیح ہے کہ اگر نکاح میں تین شرائط پائی جائیں : ہم پلہ ہو، مہر مثل ہو اور رضا مندی پائی جائے تو ایسی شادی میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں بیویوں پر کوئی ظلم نہیں ہو رہا؛ کیونکہ سب کو مکمل حق مہر ملا ہے ، پھر کسی پر کوئی جبر بھی نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ اس میں یہ بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کی بیٹی کو پسند کر لیا اور اس نے دوسرے پر شرط لگا دی کہ وہ اس کی شادی اپنی بیٹی سے کر دے۔۔۔
دلائل کا واضح مفہوم یہی تقاضا کرتا ہے کہ اگر مناسب حق مہر ، رضا مندی اور ہم پلہ خاوند ہو تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے" انتہی
" الشرح الممتع على زاد المستقنع " (12/174)
تاہم اگر ہم اس نکاح کو صحیح کہہ بھی دیں تو پھر بھی شادی کیلیے ایسا طریقہ نہیں اپنانا چاہیے۔
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ اپنے فتاوی: (10/158) میں کہتے ہیں:
" مستقبل میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسا کوئی نکاح نہ کیا جائے جس میں رشتوں کا تبادلہ ہو،چاہے ان میں حق مہر ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ وٹہ سٹہ کو نا جائز کہنے والوں کا موقف بھی مضبوط ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے رشتوں میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، مثال کے طور پر: خواتین کو ایسے مردوں سے شادی پر مجبور کیا جاتا ہے جن کے متعلق خواتین کو کوئی رغبت نہیں ہوتی، اس میں ولی اپنے مفاد کی خاطر خواتین کے مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صحیح نہیں ہے؛ نیز ایسے نکاح سے خواتین کو مہر مثل بھی نہیں ملتا جیسے کہ یہ معاملہ وٹہ سٹہ کی شادی کرنے والوں کے ہاں معروف ہے، پھر شادی کے بعد بھی بہت سے تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں" انتہی
سوم:
اگر وٹہ سٹہ کی شادی ایسی صورت میں ہو جس کے بارے میں علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ ممنوعہ شغار ہے تو پھر وہ شادی باطل ہے اور جمہور اہل علم کے ہاں اسے فسخ کرنا لازمی ہے، پھر دوبارہ سے تجدید نکاح کیا جائے۔
" المدونة الكبرى " (2/98) کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
"آپ یہ بتلائیں کہ اگر نکاحِ شغار ہو جائے اور دونوں مرد اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ رہنے لگیں اور اولاد بھی ہو جائے تو کیا یہ جائز ہو گا یا نکاح فسخ کیا جائے گا؟
اس پر امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہر حال میں نکاح فسخ ہو گا" انتہی
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وٹہ سٹہ کی شادی جائز نہیں ہے اور اسے فسخ کیا جائے گا" انتہی
" الأم " (6/198)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد سے اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ : وٹہ سٹہ کی شادی فاسد نکاح ہے" انتہی
"المغنی" (10/42)
مالکی فقیہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وٹہ سٹہ کی شادی کرنا صحیح نہیں ہے، نیز یہ دخول سے پہلے یا بعد ہر حال میں فسخ کیا جائے گا"انتہی
" الاستذكار " (16/203)
چنانچہ مندرجہ بالا مکمل تفصیلات کے بعد:
جس شخص کو علم ہو جائے کہ اس کی شادی شغار یا وٹہ سٹہ کی صورت میں ہوئی ہے تو اس نکاح کو فسخ کر کے تمام شرائط پوری کر کے دوبارہ نکاح ہو گا، لڑکی کو اس کی چاہت کے مطابق حق مہر دیا جائے گا کہ دونوں راضی ہو جائیں، شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے وٹہ سٹہ کی شادی کے بارے میں پوچھا گیا:
"یہ نکاح فاسد ہے اور ان دونوں میں جدائی کروانا ضروری ہے۔۔۔ جدائی کے بعد مرد کی حیثیت ایک عام منگنی کا پیغام بھیجنے والے کی سی ہے چنانچہ اگر لڑکی شادی کرنے پر راضی ہو اور اس کیلیے مناسب حق مہر دے تو پھر نئے سرے سے نکاح کرنا جائز ہے" انتہی
" فتاوى شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ" (10/160)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تو ولی اس لڑکی کی شادی دوبارہ نئے سرے سے کرے گا اس کیلیے شرعی مہر اور شرعی طور پر فوری نکاح ہو گا، دو گواہ ہونا بھی ضروی ہے، تاہم عدت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پہلے وہ اسی شخص کے عقد میں تھی۔۔۔ لیکن اگر مرد کو لڑکی میں دلچسپی نہیں ہے یا لڑکی مرد کو نہیں چاہتی تو وہ ایک طلاق دے دے، اور عدت گزارنے کے بعد جس کے ساتھ چاہے وہ شادی کر لے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " از: ابن باز (21/39)
پہلے یہ گزر چکا ہے کہ حنفی فقہائے کرام ایسی صورت میں نکاح کو درست کہتے ہیں اور وہ دونوں میں سے ہر ایک لڑکی کیلیےمہر مثل واجب قرار دیتے ہیں۔
چنانچہ اگر کوئی شخص اس مسئلے میں ان کی بات پر عمل کرے یا وہ ایسے علاقے میں ہے جہاں کی اکثریت حنفی ہے ، یا وہاں کی عدالتوں میں حنفی مذہب کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں نکاح فسخ نہیں ہو گا؛ کیونکہ اجتہادی مسائل میں یہ اصول کار فرما ہوتا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ احناف کے علاوہ دیگر تمام جمہور علمائے کرام کے مطابق بغیر ولی کے نکاح کو باطل قرار دینے کے بعد کہتے ہیں کہ :
"اگر بغیر ولی کے نکاح کو حاکم صحیح قرار دے دے، یا یہ عقد حاکم خود کرے تو پھر اسے توڑنا جائز نہیں ہے، اور یہی حکم دیگر تمام فاسد نکاحوں کا ہے" انتہی
"المغنی" (7/6)
ابن مفلح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی کسی کی تقلید کرتے ہوئے نکاح کی کسی صورت کو صحیح سمجھے تو اجتہاد کی بنا پر موقف تبدیل ہونے کی صورت میں اسے اپنی بیوی کو چھوڑنا نہیں پڑے گا" انتہی
" الفروع " (11/218)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
"نکاحِ حلالہ کے متعلق اگر کوئی شخص کسی ایسے عالم کی تقلید کرتا ہے جو اسے جائز قرار دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟"
اس پر انہوں نے کہا:
"خاوند کے ساتھ عرف کے مطابق یا واضح لفظوں میں اتفاق کر کے حلالہ کیلیے نکاح کرنا کہ بعد میں عورت کو طلاق دے دے گا یا خاوند اپنے دل میں طلاق کا خیال رکھے تو یہ حرام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پر متعدد احادیث میں لعنت فرمائی ہے۔۔۔ نیز حلالہ کرنے والے کے اس عمل سے پہلے شخص کیلیے یہ عورت حلال نہیں ہو گی، نیز حلالہ کی نیت سے شادی کرنے والے کیلیے اس عورت کو اپنے پاس رکھنا حلال نہیں ہے، بلکہ اسے بھی اس عورت سے جدا ہونا پڑے گا۔
لیکن اگر اجتہاد یا کسی کی تقلید کرتے ہوئے حلالہ کو پہلے جائز سمجھ لیا اور حلالہ کروا کر عورت کو اپنے عقد میں لے لیا پھر بعد میں اسے اس کے حرام ہونے کا علم ہوا تھا قوی موقف یہی لگتا ہے کہ اب اسے حلالہ کی شکل میں دوبارہ عقد میں آنے والی بیوی کو چھوڑنا اس پر واجب نہیں ہے، تاہم مستقبل میں ایسا کرنا منع ہو گا، گزشتہ امور کو اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " (32/151-152)
مندرجہ بالا مکمل تفصیلات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا نکاح صحیح ہے، تاہم مستقبل میں ایسا کام کرنے سے روکا جائے گا، جیسے کہ یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پہلے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم.