سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بيعانہ كى بيع

سوال

بعض تاجر خريدار يا كرايہ پر كچھ حاصل كرنے والے سے بطور بيعانہ كچھ رقم پيشگى ليتے ہيں كہ اگر خريدار يا كرايہ دار اپنى رائے سے پھر جائے اور چيز نہ خريدے اور كرايہ پر حاصل نہ كرے تو پيشگى ادا كى جانے والى رقم بائع ضبط كرلے گا، تو ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس سوال كا موضوع بيعانہ والى بيع ہے، اور بيعانہ كى بيع سے مراد يہ ہے كہ اگر خريدار مال خريدے گا تو بطور بيعانہ دى جانے والى رقم اس سامان كى قيمت ميں شامل ہو گى اور اگر خريدار چيز نہيں خريدتا تو يہ رقم بائع ركھے گا، اور يہ بيع اجارۃ كى جگہ ہو گى كيونكہ وہ منافع كى بيع ہے، اور ايك حديث ميں بيعانہ كى بيع سے ممانعت آئى ہے ليكن يہ حديث ضعيف ہے صحيح نہيں، اور بيعانہ كى بيع كے جواز سے كچھ معين حالات مستثنى ہيں جن ميں بيع السلم شامل ہے كيونكہ اس ميں معاہدہ كى مجلس ميں پورى قيمت ادا كى جاتى ہے، اور اسى طرح نقد كى نقد كے ساتھ فروخت اور سونے اور چاندى كى فروخت كيونكہ اس بيع ميں مجلس كے اندر ہى قبضہ ضرورى ہے، لھذا ان عقود اور معاہدات ميں بيعانہ كى جائز نہيں.

يہ اور جب انتظار كى مدت محدد بھى كردى جائے تو بيعانہ كى بيع جائز ہے اور خريدارى مكمل ہونے پر بيعانہ كى رقم قيمت كا حصہ شمار ہو گى، اور اگر خريدار چيز نہيں خريدتا تو جب وہ دونوں كى رضامندى سے وہ رقم بائع كا حق ہے.

واللہ تعالى اعلم .

ماخذ: قرارات مجمع الفقہ الاسلامى صفحہ نمبر ( 165 )