سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مزدلفہ میں ہی ٹھہرا رہا اور اپنے مناسک پورے نہیں کیے

سوال

میں مکہ کا رہائشی ہوں اور میں نے اپنے ملازمت کے ساتھیوں سے مل کر فریضہ حج ادا کرنے کی نیت کی، چنانچہ ہم عرفہ گئے اور پھر وہاں سے مزدلفہ چلے آئے اور وہاں آ کر میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا، اور مجھے حج کے واجبات اور اعمال سمیت محظورات حج کا بھی علم نہیں تھا، لہذا جب میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑا اور چونکہ انہوں نے ہی میری حج کیلئے رہنمائی بھی کرنی تھی، تو میں اپنے گھر مکہ میں واپس چلا آیا اور احرام کھول دیا، یہ عمل میں نے آدھی رات گزرنے سے پہلے کیا اور پھر میں نے اپنا حج مکمل نہیں کیا۔
اس بارے میں کیا حکم ہے اور مجھے اس کیلئے کیا کرنا ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حج یا عمرے کا احرام باندھنے والے ہر شخص پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنا حج  یا عمرہ  نفل ہو یا فرض ہر دو صورت میں مکمل کرے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ
ترجمہ: اور اللہ تعالی کیلئے حج و عمرہ مکمل کرو۔[البقرة : 196]

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی انسان حج یا عمرہ  شروع کر دے تو  کسی ایسے عذر کی بنا پر ہی اپنے  حج یا عمرے کو درمیان میں چھوڑ سکتا ہے جو انہیں مکمل کرنے میں آڑے ہو، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ
ترجمہ:  اور اللہ تعالی کیلئے حج و عمرہ مکمل کرو ، چنانچہ اگر تم محصور کر دیے جاؤ تو میسر قربانی  [ذبح کر دو]۔  [البقرة : 196] " أُحْصِرْتُمْ " کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں حج یا عمرہ مکمل کرنے سے روک دیا جائے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین " (23 / 438)

اور اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جانے کو محصور نہیں کہا جا سکتا؛ کیونکہ ساتھیوں کے بغیر بھی حج کے اعمال مکمل کیے جا سکتے ہیں، اس لئے آپ کی ذمہ داری بنتی تھی کہ حج  کا ارادہ کرنے سے پہلے حج کے ارکان آپ سیکھ لیتے ، آپ ویسے بھی مکہ کے رہائشی ہیں ، اور آپ کیلئے حج شروع کرنے سے پہلے حج کی تربیت لینا مشکل بھی نہیں ہے، اسی طرح حج شروع کرنے کے بعد کسی سے پوچھ کر حج کرنا بھی بہت ہی آسان عمل ہے۔

آپ کے ذمہ درج ذیل امور ہیں:

1- کما حقہ حج ادا نہ کرنے پر اللہ تعالی سے توبہ کریں، کہ آپ نے حج کے احکامات سیکھے بغیر ہی حج کرنا شروع کر دیا حالانکہ جس جگہ آپ رہ رہے ہیں وہاں حج کے احکامات سیکھنا بھی بہت آسان و میسر ہے۔

2- آپ کے سوال سے لگ رہا ہے کہ آپ حج افراد یا قران کر رہے تھے اور اہل مکہ کیلئے ویسے بھی حج تمتع نہیں  ہے تو اس طرح سے آپ کے ذمہ حج کے ارکان میں سے طواف افاضہ اور حج کی سعی رہ گئی ہے، جو کہ کسی صورت میں ساقط نہیں ہو سکتی، اس بنا پر انہیں ادا کرنا ضروری ہے چاہے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر گیا ہو۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طواف افاضہ ارکان حج میں سے ایک ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہو سکتا، چنانچہ اگر کوئی انسان طواف افاضہ چھوڑ دے تو اس کا حج پورا نہیں ہوا، اور واپس آ کر اسے طواف افاضہ کرنا ہوگا، چاہے اسے اپنے ملک سے واپس آنا پڑے، چنانچہ جب تک وہ طواف افاضہ نہیں کر لیتا اس کیلئے اپنی بیوی سے ہمبستری منع ہے؛ کیونکہ ابھی تک تحلل ثانی اسے حاصل نہیں ہوا،  اس کی وجہ یہ ہے کہ تحلل ثانی حج تمتع ہونے کی صورت میں ، اور حج افراد یا قران کی صورت میں اگر طواف قدوم کیساتھ اس نے سعی نہیں کی  تو ہر صورت میں طواف اور سعی کر کے ہی تحلل ثانی حاصل ہوگا" انتہی
" فتاوى أركان الإسلام " (ص 541)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"میں مکہ مکرمہ کا رہائشی ہوں، اور گزشتہ سال میں نے حج کیا تو ساتھ میں سعی نہیں کی ، اس کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"آپ کے ذمہ سعی ہے، اور سعی نہ کر کے آپ نے غلطی کی ہے، آپ کا تعلق مکہ سے ہے یا کسی اور جگہ سے ہر صورت میں سعی لازمی ہے، چنانچہ عرفات سے واپس آکر سعی کرنا ضروری امر ہے، لہذا اگر کسی نے سعی چھوڑ دی تھی تو وہ اب سعی کرے" انتہی
" فتاوى شیخ ابن باز " (17/341)

3- جن واجبات کو آپ نے ترک کیا اور ان کا وقت گزر چکا ہے ان میں سے ہر واجب کی طرف سے دم دینا ہوگا، جو واجبات آپ نے ترک کیے ہیں وہ یہ ہیں: جمرات کو کنکریاں مارنا، ایام تشریق کی راتیں منی میں گزارنا، اور حج قران کی صورت میں قربانی کرنا۔
لیکن کیا بال نہ کٹوانے کی وجہ سے آپ پر دم لازم آتا ہے؟ یا نہیں؟ کہ اب بال کٹوا لو اور آپ کے ذمہ کچھ نہیں ہوگا؟

یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں متعدد آراء کا حامل ہے۔

چنانچہ حنفی، مالکی، اور ایک روایت کے مطابق حنبلی فقہاء  اس بات کے قائل ہیں کہ جس شخص نے بال اتنی دیر تک نہیں منڈوائے کہ قربانی کے دن ہی گزر گئے تو تاخیر کی وجہ سے اس پر دم واجب ہوگا۔

جبکہ شافعی اور دوسری روایت کے مطابق حنبلی فقہاء کا کہنا ہے کہ:  اگر ایام تشریق گزر جانے تک سر کے بال نہیں منڈوائے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے، لہذا جب بھی بال کٹوا لے تو کافی ہوگا، جس طرح طواف زیارت یا سعی  بعد میں کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے، تاہم شافعی فقہائے کرام نے تاخیر کو مکروہ قرار دیا ہے۔
دیکھیں: " الموسوعة الفقهية " (10 /12-13)

چنانچہ پہلے موقف کے مطابق شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ دم واجب ہونے کا فتوی دیتے ہیں؛ آپ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا:
"ایک شخص نے عمرہ یا حج کیا اور بال کٹواتے وقت پورے سر کے بال نہیں کٹوائے، اور اس کے حج و عمرہ  کو کئی سال گزر چکے ہیں تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اسی طرح ہمیں کوئی اصول بھی بتلا دیں کہ حاجی یا عمرہ کرنے والے کو کون کون سے اعمال کرنے پر مکہ واپس آکر اسے کرنا ہوتا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس شخص نے واجب عمل ترک کیا ہے اور واجب عمل ترک کرنے پر اس کے ذمہ فدیہ ہوگا جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا، اور فقرائے حرم میں تقسیم ہوگا، اس طرح اس کا حج پورا ہو جائے گا۔
اور جن اعمال کو حاجی کے ذمہ ادا کرنا ہی لازمی ہوتا ہے وہ ارکان حج ہیں،  جبکہ واجبات  کا وقت اگر گزر جائے تو اس کی جگہ دم دینے سے کمی پوری ہو جائے گی" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (22 / 481)

4- اپنے حج کے اعمال مکمل ہونے سے پہلے جن محظورات احرام یعنی جماع وغیرہ کا اس شخص نے ارتکاب کیا ہے ، ان کے بارے میں یہ ہے کہ اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہے؛ کیونکہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ کام ان چیزوں کے بارے میں لا علمی کی بنا پر کیا ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (40512)  کا مطالعہ کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ:

آپ اپنی سستی اور کوتاہی پر توبہ کریں، اور اپنے حج کے اعمال مکمل کرنے کیلئے فوری اقدامات کریں، کہ جو حج کے ارکان یعنی طواف افاضہ اور سعی رہ گئے تھے  انہیں عملی طور پر بجا لائیں، نیز آپ کے ذمہ تین دم ہیں جو حرم میں ذبح کیے جائیں گے اور فقرائے حرم پر تقسیم کیے جائیں گے، یہ تین دم واجب اعمال ترک کرنے پر آپ کے ذمہ ہیں، اور وہ ہیں: بال کٹوانا، رمی کرنا، اور منی میں رات گزارنا، جبکہ  چوتھا جانور حج قران کی قربانی کی صورت میں ہوگا، اور اگر حج قران کی قربانی دینے کی استطاعت نہیں ہے تو آپ دس دن کے روزے رکھیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب