الحمد للہ.
الحمدللہامام شافعی ، امام احمد ، امام مالک رحمہم اللہ تعالی کے قول میں بچوں کی دیکھ بھال اورپرورش کافر نہیں کرسکتا ۔ دیکھیں : المغنی ( 11/ 412 ) ۔
اس لیے اگر آدمی کے مسلمان رشتہ دار بہت زیادہ دور رہائش پذیر ہوں توبچوں کوان کے پاس بھیجا دیا جاۓ گا ، اگرایسا کرنا ممکن نہیں توپھر ان بچوں کوکسی مسلمان گھرانے کے سپرد کردیا جاۓ تا کہ وہ ان کی دیکھ بھال اورپرورش کرسکے ۔
پرورش کرنے والے کی بعض شرائط :
اسلام : کافر پرورش نہیں کرسکتا ۔
عقل : مجنون اورپاگل اورمدہوش شخص کوپرورش کا حق نہيں ۔
بلوغت : چھوٹی عمر والا بھی پرورش نہیں کرسکتا ۔
حسن تربیت : یعنی وہ تربیت بھی اچھی کرسکتا ہو اس لیے گندی تربیت کرنے والے کوبھی پرورش کا حق حاصل نہیں ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
مسلمان کی کافر دووجوہات سے پرورش نہیں کرسکتا :
پہلی :
اس لیے کہ پرورش کرنے والا اپنے دین کے مطابق بچے کی پرورش کرنے پر حریص ہوتا ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ بچہ اس کے دین پر بڑا ہواورتربیت حاصل کرے تو اس طرح اس کے لیے بڑا اورعقل مند ہونے کے بعد اس دین سے نکلنا مشکل ہو جاۓ ۔
اوربعض اوقات تووہ اس بچے کی فطرت ہی تبدیل کرڈالتا ہے جس پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوپیدا فرمایا ہے تواس طرح وہ اس فطرت کی طرف کبھی بھی نہیں لوٹتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
( ہرپیدا ہونے والا بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے ، ( لیکن ) اس کے والدین اسے یھودی یا پھر عیسائی ، یاپھر مجوسی بنا ڈالتے ہیں ) ۔
تواس لیے خدشہ ہے کہ مسلمان بچے کوکہیں وہ یھودی یا پھر عیسائی نہ بنا ڈالے ۔
اوراگریہ کہا جاۓ کہ :
یہ حدیث تووالدین کے بارہ میں خاص ہے ۔
اس کے جواب میں یہ کہا جاۓ گا کہ :
حدیث میں غالب چيز کا ذکر ہے اس لیے کہ اکثر اورغالب طور پر بچہ اپنے والدین کے درمیان ہی پرورش پاتا ہے ، لیکن اگر اس کے والدین نہ ہوں یا پھر ان میں سے کوئی ایک نہ ہوتو ان کی جگہ اس کے رشتہ دار بچے کے ولی بنتے ہوۓ پرورش کرتے ہيں ۔
دوسری :
بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی نے مسلمانوں اورکفار کے مابین دوستی اور موالاۃ ختم کردی ہے ، اورمسلمانوں کوآپس میں ایک دوسرے کا دوست اورولی بنایا ہے ، اوراسی طرح کفار بھی آپس میں ایک دوسرے کے دوست ولی ہیں ، اوراللہ تعالی کی ختم کردہ موالات کے اسباب میں سے سب سے قوی سبب پرورش ہے جسے اللہ تعالی نے دونوں فریقوں کے مابین ختم کیا ہے ۔
دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 459 ) ۔
واللہ اعلم .