الحمد للہ.
ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص نے رمضان کے روزے ترک کیے تو وہ آئندہ رمضان کے آنے سے پہلے پہلے سابقہ رمضان کے روزے مکمل کرلے، انہیں نے اس موقف کیلئے بخاری: (1950) اور مسلم: (1146) کی روایت کو دلیل بنایا ہے، اس میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "مجھ پر رمضان کے روزے ہوتے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے ہوئے شعبان میں ہی رکھ پاتی تھی"
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے شعبان میں سابقہ رمضان کی قضا کا اہتمام اس بات پر شاہد ہے کہ آئندہ رمضان آنے تک سابقہ رمضان کی قضا مؤخر کرنا درست نہیں ہے" انتہی
" فتح الباری " (4 / 191)
اور اگر سابقہ رمضان کی قضا اتنی مؤخر کر دی کہ آئندہ رمضان بھی آ گیا تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں ، ایک یہ ہے کہ کسی عذر کی بنا پر تاخیر ہو تو صرف قضا ہی لازم ہوگی، اور اگر کسی عذر کے بغیر ہی تاخیر کی تو ایسے شخص کے بارے میں قضا تو لازم ہے ہی لیکن ساتھ میں کھانا کھلانا بھی پڑے گا یا نہیں؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اور راجح یہ ہے کہ کھانا کھلانا لازم نہیں ہے، اور اس بارے میں پہلے فتوی نمبر: (26865) میں گفتگو گزر چکی ہے۔
اس بنا پر گزشتہ سالوں میں رمضان کے جن دونوں کے روزے آپ نے نہیں رکھے تو آپ ان کی قضا دیں، اور اگر آپ روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتیں تو گرمیوں میں روزے رکھنے کی بجائے سردیوں میں روزے رکھ لیں۔
اور اگر بیماری کی وجہ سے روزے رکھنا ممکن نہ ہو، اور معتمد معالج کے مطابق بیماری بھی مسلسل جاری رہے کہ مستقبل میں بھی روزے رکھنا ممکن نہ ہو تو آپ پر روزے فرض ہی نہیں ہیں، چنانچہ آپ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور اگر آپ کے پاس کھانا کھلانے کیلئے بھی کچھ نہ ہو تو آپ کے ذمہ کھانا کھلانا بھی باقی نہیں رہے گا، اس لیے آپ پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا، کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔
واللہ اعلم.