جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

رمضان کے روزے چھوڑ دیئے، اور اب قضا دینے یا کھانا کھلانے کی طاقت نہیں ہے

سوال

سوال: مجھے شدید قسم کے وسوسوں کا سامنا تھا میں عصبی ادویات بھی کھا رہی تھی، جس کی وجہ سے میں روزے نہیں رکھ پائی اور معالج نے مجھے روزے نہ رکھنے کی ہدایت کی ، میں نے گزشتہ رمضان کے روزے ابھی تک نہیں رکھے؛ کیونکہ میں انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں مصروف تھی، اور مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ اس پر الگ سے ایک شرعی حکم لاگو ہوگا، اور آئندہ رمضان آگیا، میں نے معمول کے مطابق روزے رکھے، اس کے بعد میں نے پہلے رمضان کی قضا دینے کا ارادہ کیا، لیکن جب بھی میں نے روزوں کی قضا دینے کا ارادہ کیا تو مجھے عجیب سی تھکان محسوس ہوتی اور اس طرح تیسرا رمضان بھی گزر گیا اور میں نے پہلے رمضان کے صرف 5 روزے رکھے تھے، اس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف کا سامنا رہا حتی کہ میرا فشار ِخون [بلڈ پریشر] 80/30 یا اس سے بھی کم ہو جاتا تھا، اور میں اپنی چار پائی سے بھی اٹھ نہیں سکتی تھی، مجھے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے اس گرتی ہوئی صورت حال کے باعث یہ خدشہ ہے کہ آئندہ رمضان کے روزے بالکل بھی نہیں رکھ پاؤں گی، اور میرے پاس کھانا کھلانے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں، اور نہ ہی علاج کیلئے رقم ہے، تو میرے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص نے رمضان کے روزے ترک کیے تو وہ آئندہ رمضان کے آنے سے پہلے پہلے سابقہ رمضان کے روزے مکمل کرلے، انہیں نے اس موقف کیلئے بخاری: (1950) اور مسلم: (1146) کی روایت کو دلیل بنایا ہے، اس میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "مجھ پر رمضان  کے روزے  ہوتے  اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے ہوئے شعبان میں ہی رکھ پاتی تھی"

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے شعبان میں سابقہ رمضان کی قضا کا اہتمام  اس بات  پر شاہد ہے کہ آئندہ رمضان آنے تک سابقہ رمضان  کی قضا  مؤخر کرنا درست نہیں ہے" انتہی
" فتح الباری " (4 / 191)

اور اگر سابقہ رمضان کی قضا  اتنی مؤخر کر دی کہ آئندہ رمضان  بھی آ گیا تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں ، ایک یہ ہے کہ کسی عذر کی بنا پر تاخیر ہو تو صرف قضا ہی لازم ہوگی، اور اگر کسی عذر کے بغیر ہی  تاخیر  کی تو ایسے شخص کے بارے میں قضا تو لازم ہے ہی لیکن ساتھ میں کھانا کھلانا بھی پڑے گا یا نہیں؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اور راجح یہ ہے کہ کھانا کھلانا لازم نہیں ہے، اور اس بارے میں پہلے فتوی نمبر: (26865) میں گفتگو گزر چکی ہے۔

اس بنا پر گزشتہ سالوں میں رمضان کے جن دونوں کے روزے آپ نے نہیں رکھے تو آپ ان کی قضا دیں، اور اگر آپ روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتیں  تو گرمیوں میں روزے رکھنے کی بجائے سردیوں میں روزے رکھ لیں۔

اور اگر بیماری کی وجہ سے روزے رکھنا ممکن  نہ ہو، اور معتمد معالج کے مطابق بیماری بھی مسلسل جاری رہے کہ مستقبل میں بھی روزے رکھنا ممکن نہ ہو تو آپ پر روزے فرض ہی نہیں ہیں، چنانچہ  آپ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور اگر آپ کے پاس کھانا کھلانے کیلئے بھی کچھ نہ ہو تو آپ   کے ذمہ کھانا کھلانا بھی باقی نہیں رہے گا، اس لیے آپ  پر کچھ بھی لازم نہ ہوگا، کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اس  کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب