جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

کیا میاں اور بیوی کے درمیان محبت ہونا واجب ہے؟

سوال

کیا اسلام میں ایسی کوئی دلیل ہے کہ جس میں میاں بیوی کا ایک دوسرے سے محبت کرنا واجب ہو؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر آدمی کیلیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند اور بیوی کے ما بین محبت ایک فطری اور طبعی معاملہ ہے، تو ایسے معاملات میں یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ شریعت میں واجب ہے، یا شریعت نے اس چیز کا حکم دیا ہے بلکہ اس کی فطری اور طبعی کیفیت  پر ہی اکتفا کر لیا جاتا ہے، شرعی حکم کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔

اگر کوئی شخص  ازدواجی زندگی کو یہ سمجھتا ہے کہ یہ رومانوی  اور پھولوں بھرے خوابوں سے معمور ہوتی ہے اور بس ! تو وہ نا قابل وجود چیز کو اس دنیاوی زندگی میں تلاش کر رہا ہے، جبکہ اس دنیاوی زندگی کی طبیعت اور مزاج میں مشکلات، مشقتیں اور تکلیفیں ودیعت کی جا چکی ہیں، اللہ تعالی نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( لَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ فِي كَبَدٍ )
ترجمہ: بیشک ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں گھرا ہوا پیدا کیا ہے۔[البلد:4]

طُبِعَت عَلى كدرٍ وَأَنتَ تُريدُها       صَفواً مِنَ الأَقذاءِ وَالأَكدارِ

وَمُكَلِّف الأَيامِ ضِدَّ طِباعِها           مُتَطَّلِب في الماءِ جَذوة نارِ

ترجمہ: گدلا پن اس کی طبیعت میں شامل ہے اور تم چاہتے ہو کہ وہ میل کچیل سے پاک صاف ہو!

اگر کوئی شخص گردش زمانہ سے الٹ چلنے کا مطالبہ کرے تو وہ پانی میں انگارے تلاش کرنے والے کی طرح ہے۔

چنانچہ جب یہ بات واضح ہوگئی  اور ہم نے حقیقی نگاہ زندگی کے معاملات پر ڈالی  تو اس دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جو ہر اعتبار سے کامل ہو اور اس میں کسی قسم کا عیب نہ پایا جاتا ہو،   نیز سمجھنے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ عیوب دیکھنے کے باوجود بھی آپ آگے بڑھنے سے نہیں رکتے بلکہ معاملات کو آگے کی جانب لیکر جاتے ہیں۔

اسی لیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو فرمایا جو اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا:
تم اسے کیوں طلاق دینا چاہتے ہو؟
اس نے کہا: مجھے اس سے محبت نہیں ہے!

عمر : تو کیا ہر گھر کی بنیاد محبت پر ہی ہوتی ہے؟ باہمی شفقت اور حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے!!؟"
عیون الاخبار: (3/18)

یعنی مطلب یہ ہے کہ: اپنے دوست  اور اہل خانہ کی جانب سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرو؛ کیونکہ لوگوں کا بھی اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ تقریباً وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت تمہارا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے سے محبت اور لگن بھی نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود ایک جگہ اٹھتے بیٹھتے ہیں،  کہ ان کی ضروریات اور مجبوریاں انہیں ایک جگہ جمع کر دیتی ہیں!!

اسی خیال اور باہمی شفقت کی وجہ سے ہی ایک گھرانے کے افراد یکجا جمع ہوتے ہیں اور سب دوسروں کے حقوق سے بہرہ ور نظر آتے ہیں۔

اور حیا کی وجہ سے انسان کسی بھی ایسے اقدام سے بچتا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی خرابی رونما  ہو، یا وہ کسی منفی سرگرمی کا باعث  بن جائے۔

آپ اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور فرمائیں:
( وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ )
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جانوں سے جوڑے بنائے تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور تمہارے مابین مودت اور شفقت پیدا کی، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والی قوم کیلیے نشانیاں ہیں۔[الروم:21]

تو اس آیت کی روشنی میں میاں بیوی کے درمیان محبت محض شرعی معاملہ نہیں ہے  بلکہ اس سے پہلے  یہ اللہ تعالی کی خاوند اور بیوی کے درمیان پیدا کردہ چیز اور اللہ تعالی کی نشانی ہے، یہاں محبت کو شرعی واجب کے طور پر پیش نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالی میاں بیوی کو آپس میں محبت کرنے کا حکم دے؛ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قلبی محبت ایک ایسا امر ہے جو انسان کی ملکیت ہی نہیں ہے، البتہ حسن معاشرت اور حسن سلوک انسان کے بس کی باتیں ہیں۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے فرمان: (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا)  کا مطلب ہے کہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے عورت پیدا کی  جو تمہاری بیوی بن سکے تا کہ (لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا) تم اس کی جانب سے سکون حاصل کرو۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا وہی ذات ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا تا کہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔[الاعراف: 189] یہاں بیوی سے مراد حوا  ہیں، اللہ تعالی نے انہیں بائیں چھوٹی پسلی سے پیدا کیا۔ لیکن اگر اللہ تعالی آدم کی اولاد میں سب کو مرد بنا دیتا اور ان کی بیویاں جنوں یا حیوانوں میں سے کسی اور جنس  سے بنا دیتا تو میاں بیوی کے درمیان باہمی محبت اور ہم آہنگی پیدا نہ ہوتی، بلکہ اگر رفیق حیات کسی دوسری جنس سے ہو تو نفرت پیدا ہو جاتی۔

لہذا یہ اللہ تعالی کی اولاد آدم پر بھر پور رحمت کا مظہر ہے کہ ان کی بیویاں انہی کی جنس سے پیدا کی ہیں، پھر ان میں مودت بھی پیدا فرمائی جو کہ محبت  کی صورت میں ہے، پھر شفقت بھی پیدا کی ، تو خاوند بسا اوقات بیوی سے محبت کی بنا پر بندھن قائم رکھتا ہے یا پھر شفقت کی بنا پر کہ انسان کی اس سے اولاد  ہوتی ہے، یا بیوی کو خاوند کی ضرورت ہوتی ہے یا دونوں میں الفت یا کوئی اور سبب اتنا قوی ہوتا ہے کہ ان میں جدائی ممکن نہیں ہوتی" ختم شد

"تفسیر ابن کثیر" (6/309)

اللہ تعالی نے سورت نساء میں ایک جگہ پر فرمایا:
( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا )
ترجمہ: اور ان کے ساتھ دستور کے مطابق زندگی گزارو، پس اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند سمجھو لیکن اللہ تعالی اس میں بہت سی خیر پیدا فرما دے۔[ النساء: 19]

اس آیت کی تفسیر میں شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خاوند کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارے، حسن سلوک کرے، اسے تکلیف مت دے، اس کے ساتھ حسن کارکردگی دکھائے، اچھے انداز سے تعامل کرے، اس میں نان و نفقہ اور لباس وغیرہ کی تمام تر ذمہ داریاں شامل ہیں۔
اور پھر اللہ تعالی کا فرمان  کہ: (فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا) اس کا مطلب یہ ہے کہ: خاوندو! بہتر یہی ہے کہ تم اپنی بیویوں کو نا پسند کرتے ہوئے بھی اپنے عقد میں رکھو ؛ کیونکہ اس میں بہت ہی خیر ہے۔ جس میں سب سے پہلے یہ کہ: یہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل اور اللہ تعالی کے مشورے کو قبول کرنا ہے جو کہ دنیا و آخرت میں سعادت مندی کا باعث ہے۔

اسی طرح اگر انسان اپنی بیوی کو نا پسند کرتے ہوئے اپنے عقد میں  رکھے تو اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ  انسان اپنے نفس  کو اس کے ساتھ رہنے پر مجبور کرتا ہے جو کہ مجاہدۂ نفس میں آتا ہے، اسی طرح یہ اعلی اخلاقی مظہر بھی ہے، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے باہمی محبت نہ ہو لیکن بعد میں محبت پیدا ہو جائے اور اکثر ایسے ہی ہوتا ہے، اسی طرح اللہ تعالی اسے اولاد سے نواز دے اور وہ اولاد اپنے والدین کیلیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث بن جائے، تو یہ سب کچھ اس وقت ہے جب بیوی کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہو اور کوئی خرابی رونما ہونے کا امکان نہ ہو۔

لیکن اگر جدائی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر نکاح کا بندھن قائم رکھنا ضروری نہیں ہے" ختم شد
تفسیر سعدی" (ص 172)

صحیح مسلم (1469)میں  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی مومن کسی مومنہ [بیوی] سے بغض مت رکھے، اگر اس کی کوئی بات اچھی نہ لگے تو دیگر امور سے خوش ہو جائے)

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
"مطلب یہ ہے کہ: اپنی بیوی سے نفرت مت کرے؛ کیونکہ اگر بیوی میں کوئی نا گوار بات موجود ہے تو اس میں اچھی صفات بھی موجود ہوتی ہیں، مثلاً: بیوی تیز مزاج کی مالک ہے؛ لیکن ساتھ میں دیندار ہے، یا خوب صورت ہے، یا پاکدامن یا اپنی رفاقت کا حق ادا کرتی ہے یا اسی طرح کی کوئی اور خوبی اس میں پائی جاتی ہے" ختم شد

دوم:

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ میاں بیوی کے درمیان محبت ہونا ضروری  امر ہے، بلکہ دو طرفہ محبت ہونا واجبات میں سے ہے، اور خاوند  کا بیوی سے محبت کرنا لازمی ہے، کہ خاوند  ہر وقت بیوی کے ساتھ چمٹا رہے؛ تو پھر اس بات میں کیا مسئلہ ہے کہ مرد دو، تین یا چار شادیاں کرے اور ان سب سے محبت بھی کرے؟!

اس میں کیا مانع اور رکاوٹ ہے؟ صرف یہی کہ میاں بیوی کے بارے میں تخیلاتی رومانوی تصورات؟ یا میاں بیوی کے علاوہ کسی بھی دو افراد کے مابین پائی جانے والی محبت کے تصورات کہ محبت میں کوئی شریک نہیں ہو سکتا!؟ یہ محبت تو ایسی ہے کہ گویا اس تصور میں محبوب کو معبود بنا دیا گیا ہے کہ جس میں کسی تیسرے فرد کی شراکت اس کی عبادت اور پرستش میں شرک تصور ہو گا؟!!

کیا انسان اپنے والد ، ماں اور اس کے علاوہ افراد سے محبت نہیں کرتا؟ حالانکہ اس محبت کو بھی محبت ہی کہتے ہیں! اس کے باوجود اتنے رشتوں سے بیک وقت محبت  شراکت داری کا شکار نہیں ہوتی؛ تو اسی طرح ایک آدمی ایک وقت میں کئی بیویوں سے محبت کرے اس میں کیا مانع ہے؟

کیا انسان ایک وقت میں متعدد قسم کے کھانے پسند نہیں کرتا؟ حالانکہ سب کے سب کھانے ہی ہیں، ہر ایک کا ذائقہ اور خوشبو دوسرے سے مختلف ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود انسان تمام کھانوں کو پسند کرتا ہے اور سب کھانا چاہتا ہے؛ تو ایسے میں کون سی ایسی عقلی یا شرعی ممانعت ہے جو ایک سے زیادہ بیویوں سے محبت کرنے میں حائل اور رکاوٹ بن سکتی ہے؟

ایسی کون سی چیز ہے جو مرد کی بیوی سے محبت کو اتنا خاص بناتی ہے کہ اس میں کسی اور فرد کو شامل نہیں کیا جا سکتا؟!

کیا محبت میں عدم شراکت کا مطالبہ رب العالمین سے محبت کا تقاضا اور خاصہ نہیں ہے؟!

اگر یہ کہا جائے کہ: دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ انسان ایک وقت میں ایک ہی عورت سے دل لگاتا ہے اور اسی طرح ایک عورت ایک وقت میں ایک ہی مرد کو دل دیتی ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ: یہ بات ٹھیک ہے کہ بہت سے لوگ صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کرتے ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ لوگ ایک سے زائد شادی نہ کریں، اسی طرح وہ پھر بھی ایک سے زیادہ افراد سے محبت کرتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے جس پر  زمینی حقائق بھی موجود ہیں۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (14022) کا جواب ملاحظہ کریں اس میں ایک سے زیادہ شادی کے فوائد ذکر کئے گئے ہیں۔

اسی طرح آپ  (95114) ، (101130) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب