اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

جس ملک میں طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان بہت لمبا وقفہ ہوتا ہے وہاں نماز روزہ کیسے کرے؟

سوال

سوال: ہمیں برطانیہ میں نماز فجر کے وقت سے متعلق ایک پریشانی کا سامنا ہے، وہ اس طرح کہ فجر کی نماز کا وقت تقریباً ایک بجے شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت اندھیرا چھایا ہوتا ہے، جبکہ سورج تقریباً 4:50 پر طلوع ہوتا ہے، تاہم افق میں شعاعیں طلوع آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قبل رونما ہو جاتی ہیں، تو کیا اس وقت سحری ختم کرنا جائز ہے؟ واضح رہے کہ فجر کا وقت 1:08 پر شروع ہو جاتا ہے، جبکہ نماز صبح 4 بجے کھڑی ہوتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فجر صادق کے طلوع ہونے سے سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)
ترجمہ: کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کے وقت تمہارے لیے سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ممتاز ہو جائے، پھر رات تک روزہ مکمل کرو۔[البقرة:187]

اور اسی طرح صحیح بخاری : (617) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلال رات کے وقت اذان دیتا ہے اس لیے تم [ان کی اذان پر ] کھاتے پیتے رہا کرو، یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے) ابن ام مکتوم نابینا تھے اور وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک انہیں بتلا نہ دیا جائے کہ صبح ہو گئی ہے، صبح ہو گئی ہے۔

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی   کے پہلے ایڈیشن : (10/283) میں ہے کہ:
"روزے دار کی سحری اور افطاری کیلیے اصول اس فرمانِ باری تعالی میں ہے :
( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)
ترجمہ: کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کے وقت تمہارے لیے سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ممتاز ہو جائے، پھر رات تک روزہ مکمل کرو۔[البقرة:187] اس لیے طلوع فجر تک کھانا پینا جائز ہے اور اسی کو اللہ تعالی نے سفید دھاگا قرار دیا ہے جو کہ سحری کا وقت ختم ہونے کی انتہا ہے، چنانچہ جیسے ہی فجر ثانی رونما ہو ہو تو کھانا پینا اور دیگر روزے کے منافی امور حرام ہو جاتے ہیں، اور اگر کوئی شخص  اذان سنتے ہوئے بھی کھاتا پیتا رہے تو پھر دیکھیں اگر اذان طلوع فجر سے بعد ہے تو اس پر قضا ہے اور اگر طلوعِ فجر کے بعد ہے تو پھر  قضا نہیں ہے" انتہی

اس بنا پر :

اگر انسان کسی ایسے علاقے میں  ہے جہاں پر دن اور رات کا تصور موجود ہے تو وہ طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک روزہ مکمل کرے چاہے دن یا رت کوئی بھی کتنا ہی لمبا ہو یا چھوٹا ہو، اسی طرح چاہے طلوعِ فجر اور طلوع آفتاب میں  زیادہ وقفہ ہو یا تھوڑا۔

مزید استفادے کیلیے آپ سوال نمبر: (106527) اور (2196) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

دوم:

طلوع آفتاب سے 50 منٹ پہلے تک نماز فجر مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ فجر کی نماز کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہوتا ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لیکر اس وقت تک ہے جب تک سورج طلوع نہ ہو)  مسلم: (612)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب