الحمد للہ.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی ہدایت کی دعوت دے تو اسے ان تمام لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جو اس کے کہنے پر عمل کریں گے، اس سے ان میں سے کسی کے بھی اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جو کوئی کسی کو گمراہی کی دعوت دے تو اس پر ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابر گناہ ہو گا جو اس کے کہنے پر برائی کریں گے، اس سے ان میں سے کسی کے بھی گناہ میں کمی نہیں ہو گی۔) مسلم: (2674)
اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو کسی بھلائی کی رہنمائی کرے تو اسے اس بھلائی پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔) مسلم: (1893)
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جو اسلام میں کوئی اچھا عمل اپناتا ہے اور اس کے بعد اس کے اپنائے ہوئے عمل کو لوگ اپناتے ہیں تو اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہو گا جتنا اس پر عمل کیا گیا، اور کسی کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔) مسلم: (1017)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے: (جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں ما سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔) مسلم: (1631)
تو یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص کسی کو علم نافع سکھا دے، تو اس کے لیے ان تمام لوگوں کے اجر کے برابر اجر ہو گا جو اس علم سے فائدہ اٹھائیں گے، اور اس کا ثواب ان تمام لوگوں کی طرف سے جاری و ساری بھی رہے گا جنہوں نے اس کے ذریعے سے علم سیکھا ہو گا، یہ اجر منقطع نہیں ہو گا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ساری امت کے اجر جتنا اجر ملے گا۔
علامہ مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یقیناً ہمارے تمام کے تمام نیک اعمال اور نیکیاں ، ہر مسلمان کی ہر طرح کی عبادت سب کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نامہ اعمال میں بھی لکھی ہوئی ہیں، یہ اجر اس کے علاوہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی ذاتی نیکیاں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی امت کی تعداد کے مطابق بے شمار اجر و ثواب ملتا ہے، اس کا ادراک عقل کے لیے ناممکن ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام علمائے کرام، ہدایت کا راستہ بتلانے والے اور رہنمائی کرنے والے سب کو قیامت کے دن تک اجر و ثواب ملتا رہے گا، پھر اس کے استاد کے لیے بھی اتنا ہی اجر، اس کے استاد کے استاد یعنی دادا استاد کے لیے 2 گنا، پڑ دادا استاد کے لیے 4گنا، اس سے اوپر 8 گنا تو اسی طرح اجر کو ہر مرحلے میں ضربیں لگتی جائیں گی ، اور یہ اجر ان کے ذاتی اجر و ثواب سے الگ ہو گا، یہاں تک کہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ جائے گا ۔ چنانچہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تعلیم و تعلم کی دس نسلیں فرض کی جائیں تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ایک نیکی کے بدلے میں 1024 نیکیاں ہو ں گی، اور اگر دسویں نسل کے بعد گیارہویں نسل شروع ہو جائے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو 2048 نیکیاں ملیں گی، تو معاملہ اسی طرح آگے بڑھتا چلا جائے گا، یعنی ایک نسل بڑھنے سے سابقہ حساب کو دو گناہ کر دیا جائے گا اور یہ سلسلہ قیامت کے دن تک جاری و ساری رہے گا، تو یہ معاملہ ایسا ہے کہ اسے اللہ کے علاوہ کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا، تو یہ اس وقت ہے جب صرف ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہدایت پائی ہو، اور اگر ہدایت پانے والے صحابہ کرام ، تابعین اور مسلمانوں کی تعداد ہی بہت بڑی ہو تو معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔
لہذا ہر صحابی کے عمل کی وجہ سے جس نے بھی عمل کیا قیامت تک ان سب کے اجر کے برابر اجر ہر صحابی کو ملے گا، اور جتنا بھی اجر تمام صحابہ کرام کو ملے گا اتنا ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی ملے گا، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سلف کا رتبہ خلف پر کتنا بڑا ہے، اور جس وقت خلف زیادہ ہوتے جائیں گے سلف کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا چلا جائے گا، چنانچہ اگر کوئی شخص اس بات کو سمجھ جائے اور اسے کچھ کرنے کی توفیق بھی ملے تو وہ تعلیم کی طرف بھر پور توجہ دے، علم کی نشر و اشاعت پر خوب ترغیب دلائے تا کہ زندگی ہی میں اس کے اجر و ثواب میں اضافہ ہو جائے اور مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے اضافہ جاری رہے، بدعات ایجاد کرنے سے رکے، کسی پر ظلم مت ڈھائے، اور ظالمانہ تاوان وصول مت کرے؛ کیونکہ اس طرح اس کی برائیاں بھی مذکورہ طریقے سے اس وقت تک بڑھیں گی جب تک اس برائی پر عمل جاری و ساری رہے گا۔ اس لیے ہر مسلمان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے، خیر کی رہنمائی کرنے والے کی سعادت واضح ہوتی ہے، اور برائی کی طرف ابھارنے کی بد بختی عیاں ہوتی ہے۔" ختم شد
" فيض القدير " (6/170)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ساری امت کے ہر عمل کا اجر لکھا جاتا ہے، چنانچہ ہم کوئی بھی نفل یا فرض عمل کریں تو اس کا اجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ضرور لکھا جاتا ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی ہمیں وہ عمل سکھلایا تھا۔" ختم شد
شرح ریاض الصالحین از ابن عثیمین رحمہ اللہ: (2/258)
چنانچہ آپ کسی کو کوئی ذکر سکھائیں تو قیامت تک آپ کے لیے ان تمام لوگوں کے اجر جیسا اجر ہو گا جو آپ کے شاگردوں سے سیکھیں گے۔
واللہ اعلم