الحمد للہ.
زخم پر بچ جانے والے خون کا تعلق عام طور پر ایسے خون سے ہے جس کے بارے میں شرعاً درگزر سے کام لیا جاتا ہے؛ خصوصاً ایسے شخص کے لیے جسے چوٹیں بہت زیادہ لگتی ہوں، اور اسے اس کا بہت زیادہ سامنا بھی ہو۔
جیسے کہ "حاشية الباجوري على ابن قاسم" (1/51) میں ہے کہ:
"جسم پر سے پانی کے لیے رکاوٹ بننے والی چیزوں مثلاً: جمی ہو ئی میل وغیرہ ، چنانچہ اگر اسے زائل کرنا مشکل نہ ہو تو اسے زائل کیا جائے، اور اگر زائل کرنا مشکل ہو تو کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ پھر یہ جزو بدن بن چکا ہے ۔۔۔ اسی طرح پھوڑے کا کھرنڈ بھی زائل کرنا لازم نہیں ہے چاہے اسے زائل کرنا آسان ہی کیوں نہ ہو" ختم شد
یعنی مطلب یہ ہے کہ: کھرنڈ کو زائل کرنا واجب نہیں چاہے آسان ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح "مطالب أولي النهى" (1/116) میں ہے کہ:
"ناخن کے نیچے تھوڑا سا میل وغیرہ حرج کا باعث نہیں ہے، جیسے ناک کی اندرونی جانب جما ہو ریٹھ حرج کا باعث نہیں ہوتا، چاہے یہ پانی کے لیے رکاوٹ بن رہا ہو ؛ کیونکہ یہ چیزیں زندگی میں ہوتی رہتی ہیں، اگر ان کی وجہ سے وضو صحیح نہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ضرور اس کی وضاحت فرما دیتے؛ کیونکہ ضرورت کے وقت وضاحت نہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔
اس معمولی میل کے ساتھ شیخ تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ہر اس معمولی چیز کو شامل کر دیا ہے جو پانی کے لیے حائل بنے، مثلاً: خون، اور گوندھے ہوئے آٹے کے نشانات بدن کے کسی بھی عضو پر ہوں۔ انہوں نے اس موقف کو ناخن کے نیچے موجود میل پر قیاس کرتے ہوئے اپنایا ہے، اسی طرح اس میں اعضائے وضو کی پھٹن بھی شامل ہے ۔" ختم شد
کھرنڈ کے حوالے سے معافی اور آسانی اس لیے ہے کہ یہ بلوی عامہ ہے۔ اور اس سے بچاؤ اس وقت ہو گا جب وسوسے کی بیماری نہ ہو، چنانچہ جہاں وسوسے کی بیماری ہو اور انسان ہر وقت انہی خیالات میں مگن رہے، اور بار بار نمازیں بھی دہرائے، تو ایسی صورت میں اپنی ذات کے لیے خیر خواہی کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی باتوں پر بالکل توجہ نہ دے، اپنی ذہن کو اس جانب متوجہ نہ کرے، وگرنہ اس کی عبادات اور دیگر تمام معاملات درہم برہم ہو جائیں گے، آپ خود دیکھیں کہ کس طرح شیطان آپ کے لیے عبادت مشکل بنا رہا ہے، آپ بار بار نمازیں بھی دہرا رہے ہیں حالانکہ اس کی کوئی شرعی ضرورت بھی نہیں ہے۔
واللہ اعلم