الحمد للہ.
حج [اور عمرہ] کے مناسک طواف اور سعی وغیرہ کیلئے الگ سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ابتدا میں عمومی نیت ہی کافی ہے، جو کہ حج یا عمرے کیلئے احرام باندھتے ہوئے کی جاتی ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"متعدد اعمال پر مشتمل عبادات میں ابتدائی نیت پر ہی اکتفا کیا جائے گا، چنانچہ ہر نیا عمل شروع کرنے سے پہلے نیت کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ نیت کا اثر ایک عبادت کے تمام اعمال پر ہوتا ہے، جیسے وضو اور نماز ہے، اور اسی طرح حج کا معاملہ ہے، چنانچہ طواف ، سعی، اور وقوف وغیرہ کرنے کیلئے الگ سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہی صحیح ترین موقف ہے" انتہی
"الأشباه والنظائر" از: سيوطی (صفحہ: 27)
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ذہن نشین رہے کہ: علمائے کرام کے اقوال میں سے ان شاء اللہ مضبوط اور صحیح ترین قول یہ ہے کہ: طواف کیلئے خصوصی نیت کی ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ حج کی نیت طواف کیلئے بھی کافی ہے، اسکی طرح حج کے دیگر اعمال ہیں، مثلاً: وقوفِ عرفہ، مزدلفہ میں رات گزارنا، اور رمی کرنا،تو ان میں سے کسی کام کیلئے الگ سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ حج کی ابتدا میں کی جانے والی نیت ان تمام کاموں کو شامل ہے، یہی موقف اکثر اہل علم کا ہے۔
اور اسکی دلیل بھی بالکل واضح ہے؛ کیونکہ عبادت کی نیت عبادت کے تمام اجزا کیلئے کی جاتی ہے، چنانچہ جس طرح نماز میں ہر رکوع و سجود کیلئے خصوصی طور پر نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ نماز کی نیت کرنے کی وجہ سے یہ تمام اعمال اس میں شامل ہو تے ہیں، بالکل اسی طرح حج کے ہر عمل کیلئے بھی الگ سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ حج کی نیت میں یہ تمام افعال بھی شامل ہوتے ہیں، اہل علم نے اپنے موقف کیلئے جن امور کو دلیل بنایا ہے، ان میں سے یہ بھی ہے کہ : اگر کوئی شخص انجانے میں وقوفِ عرفہ کر لے تو بالاجماع جائز ہوگا، جیسے کہ نووی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
اور ان شاء اللہ یہی موقف درست ہے، تاہم اس کے مقابلے میں دو اقوال اہل علم کے اور بھی ہیں:
1- جس رکن میں کوئی خاص عمل ہو تو اس کیلئے الگ سے نیت ضروری ہے، جیسے کہ طواف، سعی، اور رمی وغیرہ، ان اعمال کیلئے الگ سے نیت ضروری ہے، تاہم جن اعمال میں کوئی مخصوص عمل نہیں ہے، بلکہ صرف کسی جگہ پڑاؤ ہی کرنا ہے تو اس کیلئے نیت کرنا ضروری نہیں ہے، جیسے کہ وقوفِ عرفہ، اور مزدلفہ میں رات گزارنا، اس موقف کے قائلین میں شافعی فقہاء میں سے ابو علی بن ابو ہریرہ شامل ہیں۔
2- اور دوسرا موقف یہ ہے کہ حج کے اعمال میں صرف طواف کیلئے الگ سے نیت کی جائے گی، کیونکہ طواف بھی ایک نماز ہے، اور نماز کیلئے نیت کی ضرورت ہوتی ہے، اس موقف کے قائل ابو اسحاق مروزی ہیں۔
سب سے صحیح اور واضح موقف ان شاء اللہ سب سے اوپر والا ہی ہے، اسی کے جمہور علمائے کرام بھی قائل ہیں" انتہی
"أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن" (4/ 414)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ : نیت عبادت کے ابتدائی افعال کے وقت ہوتی ہے، تاہم یہ مستحب ہے کہ نیت کا تصور عبادت کے دوران ذہن میں بھی رہے، چنانچہ [مثال کے طور پر]نماز ادا کرتے ہوئے نماز کے ہر رکن میں نیت ذہن میں ہو تو یہ افضل ہے، اور اگر کہیں دوران نماز نیت کا استحضار نہ ہو تو کیا اس سے کوئی نقصان ہوگا؟ یا نہیں؟ آپ کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، آپ اپنی پہلے والی نیت پر باقی رہیں گے۔۔۔
اسی بات سے بہت سے اہل علم نے یہ حکم اخذ کیا ہے ، جن میں شیخ محمد شنقیطی رحمہ اللہ بھی ہیں، کہ طواف اور سعی کیلئے الگ الگ نیت کی شرط نہیں ہے؛ کیونکہ طواف اور سعی دونوں ایک ہی عبادت کا حصہ ہیں، چنانچہ جس طرح آپ [دورانِ نماز]رکوع و سجود میں جانے کیلئے الگ سے نیت نہیں کرتے ، بلکہ نماز کی ابتدا میں عمومی نیت کافی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح طواف ،سعی اور عبادت کے دیگر اجزا میں ابتدائی نیت ہی کافی ہوگی، چنانچہ آپ نے "لبیک عمرۃ" جس وقت میقات پر کہا تھا، اسی وقت سے آپ نے عمرے کے تمام افعال کی نیت کر لی تھی۔
اس موقف میں لوگوں کیلئے آسانی بھی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ -خصوصاً بھیڑ اور ازدحام کے دنوں میں - جب بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف شروع کرتے ہیں، تو ان کے ذہن سے یہ بات ہی اوجھل ہو جاتی ہے کہ اس نے عمرے کیلئے طواف کی نیت کرنی تھی، اور یہ کون سا طواف تھا، چنانچہ جب ہم یہ کہیں کہ طواف اور سعی نماز میں رکوع و سجود کی طرح ہیں، اور نماز کی نیت میں یہ افعال بھی شامل ہو جاتے ہیں تو اس سے لوگوں کیلئے وسعت، اور آسانی ہوگی، مزید بر آں یہ بہت سے اہل علم کا موقف ہے، اور یہی موقف ہم نے اختیار کیا ہے؛ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ اس وقت ورطۂِ حیرت میں پڑ جاتے ہیں جب لوگوں کا ازدحام دیکھتے ہیں، اور طواف کی نیت سے حرام میں داخل تو ہوجاتے ہیں، لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طواف حج کا ہے یا عمرے کا؟ لیکن ان کی طواف کی نیت ہوتی ہے، کیونکہ ان کے آنے کا مقصد ہی طواف کرنا ہے" انتہی
"تعليقات شیخ ابن عثیمین على الكافي"مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق صفحہ نمبر(1/ 348)۔
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق : آپکا طواف درست ہے، اس لیے آپ کے ذمہ کچھ کفارہ وغیرہ لازم نہیں ہوتا۔
اور عمرہ سے فراغت کے بعد آپ کے ذہن میں آنے والا شبہ محض شک تھا، اس لیے اس کی طرف توجہ مت دیں، کیونکہ عبادت مکمل کرنے کے بعد ذہن میں آنے والے شکوک و شبہات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، اور یہ محض شیطانی وساوس ہوتے ہیں۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (67728) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم.