الحمد للہ.
کفریہ یا شرکیہ عمل کرنے والا شخص دو حال سے خالی نہیں ہو گا:
اول:
ایسا شخص غیر مسلم ہو چاہے وہ کسی دین کا قائل ہو یا لا دین اور ملحد شخص ہو
تو ایسی صورت میں وہ شخص کافر ہے، چاہے وہ علم رکھتا ہو یا جاہل ہو یا تاویل کرتا ہو، اس پر دنیا میں اسلامی احکامات لاگو نہیں ہوں گے، لہذا اس کے ساتھ کفار والا معاملہ کیا جائے گا؛ کیونکہ یہ شخص تو اسلام میں بالکل بھی داخل ہی نہیں ہوا، تو ایسے شخص پر اسلام کا حکم کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟! نہ ہی وہ اپنی نسبت اسلام کی جانب کرتا ہے!؟
البتہ آخرت میں یہ ہو گا کہ: اگر وہ جاہل ہے اور اسے اسلام کی دعوت بالکل نہیں پہنچی ، یا دعوت تو اس کی اپنی زبان میں پہنچی لیکن وہ بھی اسلام کی مسخ اور تبدیل شدہ صورت تھی کہ جس کی بنا پر حجت قائم نہیں ہو سکتی تھی تو پھر ایسے شخص کے بارے میں آخرت کے روز کیا ہو گا اس کے متعلق طویل و عریض اختلاف ہے۔
اس کے بارے میں راجح ترین موقف یہ ہے کہ: قیامت کے دن اس کا امتحان لیا جائے گا؛ چنانچہ اگر وہ اطاعت گزاری کرے تو جنت میں داخل ہو جائے گا اور اگر نافرمانی کی تو جہنم میں جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور بہت سے ایسے آثار ملتے ہیں کہ جسے دنیا میں اسلام کا پیغام نہ پہنچا تو قیامت کے دن اس کی جانب میدان محشر میں ایک پیغمبر بھیجا جائے گا" انتہی
"مجموع الفتاوى" (17/308)
اس کے بارے میں پہلے بھی سوال نمبر: (1244) اور ( 215066) کے جواب میں تفصیل گزر چکی ہے۔
دوم:
کفریہ یا شرکیہ عمل کرنے والا انسان اسلام کا دعوے دار ہو اور واقعی اس میں اسلام کا وصف پایا بھی جائے، اعلانیہ طور پر اسلام کا اقرار کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل تصدیق بھی اعلانیہ کرے ۔
تو اگر ایسا شخص لاعلمی کی بنا پر جہالت کی وجہ سے کوئی کفریہ کام کر لے تو اسے اس بنا پر کافر نہیں کہا جائے گا، اور اس وقت تک وہ اسلام کے وصف سے خارج نہیں ہو گا جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر دلائل واضح نہ ہو جائیں۔
شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے، دونوں کی تصدیق کرتا ہے، دونوں کی اطاعت کی پابندی بھی کرتا ہے لیکن جہالت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے بعض احکامات کا انکار کر دے ، یا اسے یہ علم ہی نہیں ہے کہ یہ تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں [اور وہ ان کا انکار کر دیتا ہے] تو اگرچہ اس کا یہ عمل اصل میں کفر ہے، اور یہ عمل کرنے والا کافر ٹھہرتا ہے، لیکن اس شخص کی جہالت اس کو کافر قرار دینے میں مانع آتی ہے، [جہالت کے مانع ہونے کیلیے ] عقیدے یا فقہی مسائل میں فرق بھی نہیں کیا جائےگا؛ کیونکہ کفر کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی سب یا کچھ تعلیمات کا علم ہوتے ہوئے انکار کر دیا جائے ۔
اس سے آپ کو یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ رسول کا انکار کرنے والے مقلد کفار اور جہالت اور گمراہی کی وجہ سے رسول کی بعض تعلیمات کا انکار کرنے والے مومن کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس فرق میں ایمان کے مدعی شخص کا علم اور ہٹ دھرمی پر مبنی کفریہ عمل شامل نہیں" انتہی
"الفتاوى السعدية" (ص: 443-447)
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہالت کی بنا پر عذر قبول کرنا تمام کے تمام شرعی مسائل میں ہے، چاہے ان کا تعلق عقیدہ، توحید اور شرک سے ہو یا فقہی احکام سے۔
عقیدے کے مسائل میں مسلمان کا جہالت کی بنا پر عذر قبول کرنے کا ذکر متعدد شرعی دلائل میں موجود ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- ایسی تمام شرعی نصوص جن میں خطا کار کا عذر قبول کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے صحیح مسلم (126) کی روایت کے مطابق فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے)
اسی طرح: فرمانِ باری تعالی ہے: (وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)
ترجمہ: جن امور میں تم سے خطا ہو جائے اس میں تم پر گناہ نہیں ہے، تاہم جن میں تمہارے دل عمداً خطا کریں [ان میں گناہ ہے]اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[ الأحزاب:5]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت سے خطا ، بھول چوک اور زبردستی کروائے گئے کام معاف کر دیے ہیں)
ابن ماجہ: (2043) اس حدیث کو البانی نے حسن کہا ہے۔
تو ان تمام نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے بھی بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے شرعی حکم کی مخالفت کی تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ خطا کار میں جاہل اور لا علم شخص بھی شامل ہے؛ کیونکہ ہر وہ شخص خطا کار ہے جو غیر ارادی طور پر حق بات کی مخالفت کر لے۔
شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ [معافی] عام ہے اس میں وہ تمام اہل ایمان شامل ہیں جو غلطی سے کوئی عملی یا اعتقادی خطا کر بیٹھیں" انتہی
"الإرشاد إلى معرفة الاحكام" ص 208
ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جہالت بلا شک و شبہ خطاکاری میں شامل ہوتی ہے، اس لیے ہم یہ کہتے ہیں: اگر کوئی انسان ایسا قولی یا فعلی کام کر لے جو کفر کا موجب ہے ، لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ کفر ہے، یعنی اسے شرعی دلیل کی روشنی میں علم نہیں ہے کہ یہ کام کفر ہے؛ تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا" انتہی
"الشرح الممتع" (14/449)
ایسے ہی شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے) یہاں پر کسی ظنی یا قطعی مسئلے میں یقینی خطا کی تفریق نہیں فرمائی۔۔۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی بھی قطعی یا ظنی مسئلے میں خطا کھانے والا شخص گناہ گار ہو گا تو ایسا شخص کتاب و سنت اور قدیم اجماع کی مخالفت کر رہا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (19/210)
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
"میں ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں اور میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کسی معین شخص کو کافر، فاسق یا گناہگار کہنے کا سخت مخالف ہوں اور اس سے روکتا ہوں، صرف ایک حالت میں[معین طور پر کافر ہونے کا حکم لگاتا ہوں جب] کہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص پر وحی کی حجت قائم ہو گئی ہے؛ کہ جس کی مخالفت کرنے پر انسان بسا اوقات کافر، تو کبھی فاسق یا بعض حالات میں گناہگار ہو جاتا ہے۔ اور میں یہ بات پختگی سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اس امت کے خطا سے ہونے والے گناہ معاف کر دئیے ہیں، اور خطا سے ہونے والے گناہوں میں وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کا تعلق خبری قولی [یعنی نظریاتی] اور عملی [یعنی فقہی] مسائل سے ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (3/229)
اسی طرح ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس امت میں سے جاہل اور خطا کار شخص کوئی کفریہ یا شرکیہ عمل بھی کر لے تو وہ پھر بھی کافر یا مشرک نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس شخص کی جہالت اور خطا کاری اس وقت تک بطور عذر قبول کی جائے گی جب تک حجت اس کیلیے بالکل واضح طور پر عیاں نہیں ہو جاتی [اور حجت اس طرح عیاں ہو] کہ اس [جیسی واضح حجت ]کا منکر کافر ہو جائے۔" انتہی، ان سے یہی بات قاسمی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "محاسن التأويل" (3/161) میں بھی نقل کی ہے۔
ایسے ہی شیخ عبدالرحمن بن یحیی معلمی رحمہ للہ کہتے ہیں:
"ہم نے اگرچہ سوال کی صورتوں میں سے کسی ایک کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ: "غیر اللہ سے دعا کرنا غیر اللہ کی عبادت اور شرک ہے" لیکن ہمارے اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر اللہ سے کوئی بھی دعا مانگنے والا مشرک بھی ہو جائے گا، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ وہ شخص مشرک ہو گا جس کے پاس غیر اللہ سے مانگتے ہوئے کوئی شرعی عذر نہ ہو، چنانچہ اگر کسی [غیر اللہ کو پکارنے والے]کا کوئی شرعی عذر بنتا ہو تو عین ممکن ہے کہ [اس شرکیہ عمل کے باوجود]وہ اللہ تعالی کا پسندیدہ بندہ ہو بلکہ افضل اور سب سے متقی شخص بھی ہو سکتا ہے" انتہی
" آثار شیخ عبد الرحمن معلمی" (3/ 826)
2- اللہ تعالی کی جانب سے بندوں پر حجت علم کے بعد ہی قائم ہوتی ہے اس بارے میں کتاب و سنت کی نصوص یہ ہیں:
جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا)
ترجمہ: اور ہم رسول مبعوث کر دینے تک عذاب دینے والے نہیں ہیں۔[ الإسراء :15]
اسی طرح ایک اور فرمان ہے:
( رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا)
ترجمہ:[ہم نے بھیجے] رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تا کہ لوگوں کیلیے اللہ تعالی پر رسولوں کے بعد حجت نہ رہے ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ [النساء:165]
اسی طرح یہ بھی ہے کہ:
(وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ) ترجمہ : اور اللہ تعالی کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا، یہاں تک کہ ان کیلیے تقوی اختیار کرنے کے ذرائع واضح فرما دیتا ہے۔[التوبہ:115]
اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ہیں جن میں یہ بات واضح ہے کہ حجت اسی وقت قائم ہوتی ہے جب تک مکلف کو علم نہ ہو جائے اور اس کیلیے واضح نہ ہو جائے۔
تو ان سب آیات میں یہ بات واضح ہے کہ : مکلف شخص سے اس وقت تک شرعی احکامات کی پابندی کا مطالبہ نہیں ہو سکتا جب تک اسے ان کا علم نہ ہو جائے، چنانچہ جب تک اسے علم نہیں ہے تو وہ معذور سمجھا جائے گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ " رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ " آیت کے فوائد ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس آیت میں عظیم ترین علمی فائدہ ہے کہ جہالت کی بنا پر عذر قبول ہو گا، یہاں تک کہ عقائد کے بارے میں بھی ؛ کیونکہ رسولوں کو عقائد اور فقہی احکام دونوں دے کر بھیجا جاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص لا علم ہے ااور س کے پاس رسول کی تعلیمات نہیں پہنچتیں تو اس کے پاس اللہ کے ہاں عذر پیش کرنے کیلیے حجت موجود ہے، اور اللہ تعالی کے ہاں پیش کرنے کیلیے حجت اسی وقت موجود ہو گی جب اس کے پاس شرعی طور پر معقول عذر ہو گا" انتہی
"تفسیر سورة النساء" (2/485)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بندے پر احکامات اسی وقت لاگو ہوتے ہیں جب وہ خود ان احکامات کا ادراک کر لے یا احکامات اس تک پہنچ جائیں، چنانچہ جس طرح بندے کے ادراک سے پہلے احکامات اس پر لاگو نہیں ہوتے تو بالکل اسی طرح اگر احکامات اس تک نہ پہنچیں تو بھی اس پر احکامات لاگو نہیں ہوتے" انتہی
"بدائع الفوائد" (4/168)
ایسے ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "الرد على الإخنائي" (ص: 206) -عنزی کا تحقیق شدہ نسخہ -اس میں کہتے ہیں:
"ایسے ہی جو شخص غیر اللہ کو پکارے ، غیر اللہ کا قصد کرے تو وہ بھی مشرک ہے، اس کا عمل کفر ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل کے شرک ہونے سے نابلد ہو۔
جیسے کہ بہت سے تاتاری اور دیگر لوگ جب اسلام میں داخل ہوئے تو ان کے پاس اون کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بت تھے ، یہ لوگ اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی ان کی تعظیم کرتے ان کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ دینِ اسلام میں حرام ہے، اسی طرح کچھ آگ کی پرستش کرتے تھے لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ حرام ہے۔ لہذا یہ ممکن ہے کہ شرک کی بہت سی اقسام نو مسلموں سے اوجھل رہ جائیں اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ یہ شرک ہے، تو ایسا شخص گمراہ کہلائے گا ، اس کا شرکیہ عمل باطل ہو گا تاہم اسے [مرتد کی] سزا نہیں دی جائے گی یہاں تک کہ اس پر حجت قائم ہو جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ: پس تم جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کا ہمسر مت بناؤ۔[البقرة: 22] "انتہی
3- ایسی نصوص جن میں شرک یا کفر سر زد ہونے پر عذر قبول کیا گیا، ان میں درج ذیل نصوص شامل ہیں:
اول: اس شخص کا واقعہ جو اپنے آپ کو مرنے کے بعد جلانے کا حکم دیتا ہے اور وہ اللہ تعالی کی قدرت کا انکار کر بیٹھتا ہے۔
یہ واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (ایک شخص نے اپنے جان پر بہت ظلم ڈھائے تھے چنانچہ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پھر مجھے پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کسی کو اس نے اس سے پہلے اتنا عذاب نہیں دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا اور فرمایا:
اس آدمی کا جو حصہ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کر دو، تو زمین سے اسے جمع کر دیا اور وہ زندہ کھڑا ہو گیا۔
تو اللہ تعالی نے پوچھا: تمہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟
اس نے کہا: پروردگار! تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا) متفق علیہ
اب اس آدمی سے جو بات صادر ہوئی تھی یہ کفر اکبر ہے اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اس نے اللہ تعالی کی قدرت کا انکار کیا ہے کہ اللہ تعالی اسے اس انداز سے مرنے کے بعد زندہ نہیں کر پائے گا۔ حالانکہ اللہ تعالی کی صفتِ قدرت اللہ تعالی کی صفات میں سے واضح اور سب سے عیاں صفت ہے، بلکہ قدرتِ الہی اللہ تعالی کی ربوبیت اور الوہیت دونوں کیلیے لازم و ملزوم ہے، قدرت کی صفت پروردگار کیلیے سب سے خاص صفت کا مقام رکھتی ہے۔ لیکن اتنی اہم صفت کا انکار کرنے کے بعد بھی وہ کافر نہیں ہوا؛ کیونکہ اس کی لا علمی کی بنا پر اس کا عذر قبول کیا گیا۔
اس حدیث کی شرح میں ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام اس کے مفہوم کے متعلق مختلف آرا رکھتے ہیں؛ کچھ کہتے ہیں کہ اس شخص کو اللہ تعالی کی صفت قدرت کا صحیح علم نہیں تھا کہ اللہ تعالی جو چاہے کرنے پر قادر ہے۔ تو ان علمائے کرام کا یہ کہنا ہے کہ: جو شخص اللہ تعالی کی کوئی ایک صفت سے نابلد رہے اور دیگر تمام صفات کو سمجھ کر ان پر ایمان رکھے تو وہ چند صفات سے نابلد ہونے کی بنا پر کافر نہیں ہوگا۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ: کافر وہ ہوتا ہے جو حق بات ماننے سے ہٹ دھرمی کرے اس لیے لا علمی کی بنا پر انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا۔
یہ موقف متقدمین علمائے کرام اور انہی کے نقش قدم پر چلنے والے متاخرین کا بھی ہے۔" انتہی
"التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد" (18/42)
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک ہوا تھا کہ اگر اسے پیس کر اڑا دیا گیا تو اللہ تعالی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا، بلکہ اس کا عقیدہ بن گیا کہ وہ دوبارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات تمام مسلمانوں کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے؛ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی قدرت سے نابلد تھا ، اور ساتھ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایمان بھی رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (3/231)
اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ:
"اس شخص نے یہ نظریہ بنا لیا تھا کہ اگر اس کی وصیت پر عمل کیا گیا تو اللہ تعالی اس کے جسمانی اجزا اور ذرات کو جمع نہیں کر سکے گا، یا اسے اللہ تعالی کی اتنی بڑی قدرت کے بارے میں شک تھا کہ اللہ تعالی اسے زندہ نہیں کر سکے گا۔ یہ دونوں باتیں ہی کفر ہیں۔ اس سے وہ شخص کافر ہو جائے گا جس پر [اللہ تعالی کی ان صفات کے بارے میں]حجت قائم ہو چکی ہو، لیکن چونکہ وہ اس صفت سے جاہل تھا اور اسے اتنا علم حاصل نہیں ہو سکا جس سے اس کی یہ جہالت زائل ہو جاتی نیز اس کے پاس اللہ تعالی کے بارے میں ایمان تھا، اللہ تعالی کے احکامات، امر و نہی، وعدوں اور وعیدوں پر ایمان تھا اسی لیے وہ اللہ کے عذاب سے ڈر گیا [اور یہ انتہائی قدم اٹھا لیا] تو اللہ تعالی نے اس کے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔
لہذا اگر کوئی شخص عقیدے کے بعض مسائل میں غلطی کر بیٹھے اور وہ اللہ تعالی، رسول اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ، نیک عمل کرتا ہو تو وہ اس شخص سے کمتر نہیں ہو سکتا ؛ تو اللہ تعالی اس کی خطا معاف فرما دے گا، یا اس کی حق پر عمل پیری میں کوتاہی کے مطابق سزا دے گا۔
لیکن معروف ایمان والے شخص کو محض غلطی کی بنا پر کافر کہہ دینا بہت ہی سنگین اقدام ہے" انتہی
"الاستقامة" (1/164)
اور امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے بہت سے اسما اور صفات ہیں جو کہ قرآن مجید میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں امت کو بیان کیے ہیں، اب جس شخص پر حجت قائم ہو چکی ہے اس کیلیے ان اسما اور صفات کو رد کرنا ممکن نہیں؛ کیونکہ قرآن مجید نے انہیں بیان کیا ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہو چکے ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص اپنے اوپر حجت قائم ہو جانے کے بعد بھی ان کی مخالفت کرے [یعنی انہیں تسلیم نہ کرے] تو وہ کافر ہے۔ لیکن حجت قائم ہو جانے سے پہلے وہ شخص لا علمی کی بنا پر معذور شمار ہو گا؛ کیونکہ اسما اور صفات کا علم محض عقل سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، نہ ہی غور و فکر اور سوچ و بچار سے ممکن ہے۔ لہذا ہم کسی کو بھی لا علمی اور جہالت کی بنا پر اس وقت تک کافر نہیں کہتے جب تک اسے علم نہ ہو جائے" انتہی
"سير أعلام النبلاء" (10/79)
دوم: بنی اسرائیل کا موسی علیہ السلام کے ساتھ واقعہ:
اللہ تعالی نے اس واقعے کے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ * إِنَّ هَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ * قَالَ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ )
ترجمہ: اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر عبور کروایا تو وہ ایسی قوم کے پاس آئے جو کہ اپنے بتوں پر مجاور بن کر بیٹھتے تھے، قوم موسی نے کہا: اے موسی! ہمارے لیے بھی ایسا ہی معبود بنا دو جیسے ان کے معبود ہیں، تو موسی نے کہا: تم یقیناً جاہل قوم ہو ٭ بیشک یہ قوم جس حالت میں ہے تباہ ہونے والی اور جو یہ کر رہے ہیں یہ باطل ہے ٭ پھر فرمایا کہا : کیا میں اللہ کے علاوہ تمہارے لیے کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی ہے ۔[ الأعراف:138 - 141]
تو اس آیت میں واضح ہے کہ انہوں نے موسی علیہ السلام سے ایک بت بنانے کا مطالبہ کیا تھا جس کی عبادت کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں؛ جیسے کہ ان مشرکوں نے عبادت کیلیے اپنے معبود بنا رکھے تھے۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یہ ان کے بہت بڑے جاہل ہونے کی خبر ہے کہ انہوں نے اللہ کی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی غیر اللہ کی پرستش کو جائز سمجھ لیا "انتہی
"زاد المسیر" (2/150)
اسی طرح شیخ عبدالرحمن معلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"موسی علیہ السلام کے جواب سے عیاں ہے کہ اگرچہ انہوں نے اپنی قوم کی جہالت پر مذمت فرمائی لیکن ان کے اس مطالبے کو ارتداد شمار نہیں کیا، اس کی دلیل یہ ہے کہ قوم موسی کا فوری مواخذہ نہیں کیا گیا جیسے کہ بچھڑا بنانے پر ان کا فوری مواخذہ ہوا تھا، تو گویا کہ -اللہ اعلم- انہیں نو مسلم ہونے کی وجہ سے معذور سمجھا گیا"انتہی
"مجموع رسائل المعلمی" (1/142)
سوم: ذات انواط کا واقعہ
ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حنین کی جانب روانہ ہوئے تو ہم ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: "اللہ کے نبی! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط بنا دیں جیسے کہ کفار کا ذات انواط ہے، کفار اس بیری کے درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے اور اسے آس پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے۔ یہ مطالبہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا: (اللہ اکبر! یہ تو وہی بات ہے جو بنی اسرائیل نے موسی سے کہی تھی: (اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ) ہمارے لیے بھی ایسے ہی معبود بنا دو جیسے ان کے معبود ہیں، تم تو اپنے سے پہلے گزر جانے والے لوگوں کی راہ پر ہو)" ترمذی (2180)نے اسے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ، اسی طرح امام احمد نے اپنی مسند (21900)میں اسے روایت کیا اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا۔
تو اس واقعے میں واضح ہے کہ نو مسلم افراد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک اکبر کا مطالبہ کیا کہ ان کیلیے بھی درخت سے تبرک اور تعلق بنانا جائز قرار دیا جائے جیسے کہ مشرک کیا کرتے تھے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس مطالبے کو بنی اسرائیل کے مطالبے سے تشبیہ دی۔
محمد رشید رضا رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بات کا مطالبہ کیا تھا وہ نو مسلم تھے اور عہد قریب میں شرک سے توبہ کی تھی، تو انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو ہمارے لیے مقرر کر دیں گے وہ شرعی طور پر صحیح ہو گی اسلام سے متصادم نہیں ہو گی" انتہی
اقتباس از تبصرہ بر: "مجموع الرسائل والمسائل النجدية"(4/39)
اسی طرح شیخ عبدالرزاق عفیفی رحمہ اللہ سے مردوں کے بارے میں غلط نظریات رکھنے والے اور ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنے والے قبر پرستوں کے متعلق سوال کیا گیا تو شیخ محترم نے کہا:
"اگر ان پر حجت قائم ہو چکی ہے تو وہ اسلام سے مرتد ہیں، بصورتِ دیگر جہالت کی وجہ سے معذور ہوں گے جیسے کہ انواط کا مطالبہ کرنے والوں کو معذور سمجھا گیا" انتہی
"فتاوى شیخ عبد الرزاق عفیفی" ص: 371
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے بعد ہم سب کو یہ بات لازمی طور پر معلوم ہے کہ انہوں نے اپنی امت کو مردوں سے حاجت روائی کی اجازت نہیں دی، چاہے وہ فوت شدگان انبیا ہوں یا نیک لوگ یا کوئی اور، چاہے حاجت روائی کیلیے انہیں غوث کہیں یا کوئی اور لفظ بولیں، ان کی پناہ مانگیں یا کچھ اور کہیں۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کیلیے کسی بھی مردے یا زندہ شخص کو سجدہ وغیرہ کرنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور سے ممانعت فرمائی ہے، نیز آپ نے یہ بھی بتلا دیا کہ ایسے تمام امور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حرام کردہ شرک میں شامل ہیں۔
لیکن عہد نبوت سے بعید زمانے میں جہالت کے غلبے اور علمِ نبوت کی کمی کے باعث لوگوں کی تکفیر ممکن نہیں ہے، تاآنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لائی گئی شریعت ان کیلیے واضح ہو جائے" انتہی
"الرد على البكري" (2/ 731)
اسی طرح شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"قبروں میں مدفون لوگوں سے مانگنا ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی چاہنا شرک اکبر ہے جو کہ دائرہ اسلام سے انسان کو خارج کر دیتا ہے۔
اس عمل کو شرک اور کفر کہا جائے گا تاہم اس عمل میں ملوث ہر شخص کو کافر یا مشرک نہیں کہا جائے گا؛ کیونکہ اگر کوئی شخص جہالت کی بنا پر اس کام میں ملوث تھا تو وہ جہالت کی وجہ سے معذور ہو گا، یہاں تک کہ اس پر حجت قائم ہو جائے اور حجت سمجھ لینے کے بعد بھی عناد کا مظاہرہ کرے تو پھر ایسی صورت میں اس پر کفر اور مرتد ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔
قبر پرستی ایسے امور میں سے ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس کے بارے میں بصیرت حاصل نہیں ہے خاص طور پر ایسے ماحول کے افراد جہاں پر قبروں کا احترام اور نیک لوگوں سے حاجت روائی کو صالحین سے محبت کے نام پر کیا جاتا ہو، جہاں پر اپنے آپ کو عالم قرار دینے والے لوگ ہی قبر پرستی میں پیش پیش ہوں اور مدفون شخصیات کو قرب الہی کا ذریعہ قرار دیں۔" انتہی
" كتب ورسائل علامہ العباد" (4/372)
چہارم: حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام ایسے ہی پرانا ہو جائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار پرانے ہو جاتے ہیں، حتی کہ یہ بھی معلوم نہیں رہے گا کہ نماز، روزہ، قربانی اور زکاۃ کیا چیز ہو تی ہیں ؟ اور کتاب اللہ ایک رات میں ایسی غائب ہو جائے گی کہ اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہے گی ، اور لوگوں کے چند گروہ ان میں سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں باقی رہ جائیں گے، کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کلمہ "لا الہ الا الله" کہتے ہوئے پایا تھا تو ہم بھی یہی پڑھتے ہیں۔
تو راوی صلہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جب انہیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے تو انہیں فقط یہ کلمہ "لا الہ الا الله" کیا فائدہ پہنچائے گا؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان سے منہ پھیر لیا۔
پھر انہوں نے تین بار یہ بات ان پر دہرائی لیکن وہ ہر بار ان سے منہ پھیر لیتے، پھر تیسری مرتبہ ان کی طرف متوجہ ہو کر گویا ہوئے: صلہ! یہ کلمہ انہیں جہنم سے بچا لے گا، آپ نے یہ بات تین بار دہرائی"
ابن ماجہ: (4049)، اس حدیث کو علامہ بوصیری نے "مصباح الزجاجہ" (2/ 291) میں صحیح کہا ہے نیز البانی نے بھی اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" (1/171) میں صحیح قرار دیا ہے۔
تو اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایمان مجمل یعنی عقیدہ توحید کا اقرار ہو گا، نیز انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہو گا ماسوائے زبانی اقرار کے جو انہوں نے اپنے آباء سے سنا ہوگا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بہت سے لوگ ایسی جگہوں یا وقت میں نشو و نما پاتے ہیں جہاں علم نبوت میں سے بہت سی چیزیں مٹ چکی ہوتی ہیں، حتی کہ وہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی کتاب و حکمت کی تبلیغ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ایسی بہت سی باتیں وہاں کے لوگ نہیں جانتے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہوتا ہے اور نہ ہی وہاں پر اس کی تبلیغ کرنے والا کوئی ہوتا ہے، تو ایسے ماحول کا آدمی کافر نہیں ہو گا؛ اسی لیے ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اہل علم سے دور دراز کے علاقے میں پروان چڑھے اور وہ نو مسلم بھی ہو تو اس حالت میں کسی مشہور و معروف متواتر عمل کا انکار کر دے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا یہاں تک کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آشنا نہ کر دیا جائے"انتہی
"مجموع الفتاوى" (11/407)
تو خلاصہ یہ ہوا کہ:
" ایسی جہالت جس کی بنا پر انسان کو معذور سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان حق جانتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی حق بات اس کے سامنے ذکر کی جاتی ہے تو ایسی جہالت کی بنا پر انسان کو غلطی پر گناہ نہیں ملتا اور نہ ہی اس غلطی پر مرتب ہونے والے احکام انسان پر لاگو ہوتے ہیں، نیز جہالت کی بنا پر غلطی کرنے والا شخص اگر مسلمان ہونے کا دعویدار ہو اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہو تو وہ مسلمان ہی شمار ہوگا [کافر نہیں ہو جائے گا] اور اگر وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے تو پھر اس کا تعلق دنیا میں اسی دین سے ہو گا جس کی طرف وہ اپنی نسبت رکھتا ہے۔
جبکہ آخرت میں اس کا معاملہ اہل فترہ والا ہو گا، یعنی قیامت کے روز اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہو گا۔
اس طرح کے لوگوں کے بارے میں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کا جیسے چاہے گا امتحان لے گا، چنانچہ ان میں سے جو اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل شیخ ابن عثیمین" (2/ 128)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (215338) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح ڈاکٹر سلطان عمیری حفظہ اللہ کی کتاب: " إشكالية الإعذار بالجهل في البحث العقدي" کا مطالعہ بھی نہایت مفید ہو گا۔
واللہ اعلم.