جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

کیا ایک میاں بیوی کے سپرم اور بیضہ کو اسی مرد کی دوسری بیوی کے رحم میں منتقل کر سکتے ہیں؟

23104

تاریخ اشاعت : 23-02-2022

مشاہدات : 3583

سوال

احمد نامی شخص کی دو بیویاں ہیں، پہلی بیوی کی اولاد نہیں ہو سکتی، لیکن دوسری بیوی کی الحمد للہ اولاد ہے، اب عصر حاضر میں اللہ تعالی کے فضل سے ڈاکٹر حضرات بیوی اور خاوند کے سپرم اور بیضہ کو Teste-tube baby میں ڈالتے ہیں اور ان کے درمیان بارآوری کرواتے ہیں، جیسے ہی ابتدائی مراحل مکمل ہوتے ہیں تو یہ دوسری بیوی کے رحم میں رکھ دیتے ہیں تا کہ جنین کی مکمل بڑھوتری اسی دوسری بیوی کے رحم میں ہو اور وہی اسے جنم دے، تو کیا یہ طریقہ کار کتاب و سنت کی روشنی میں جائز ہے؟ بعض لوگ اسے رضاعت پر قیاس کرتے ہوئے جائز کہتے ہیں، یعنی جس طرح کسی بھی عورت کا دودھ پلا کر بچے کو غذا دی جا سکتی ہے، اسی طرح بچہ اس کے خون سے اس کے رحم میں پرورش پا سکتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

بیضہ اور مرد کے سپرم میں بار آوری کروانے کے بعد دوسری بیوی کے رحم میں منتقل کرنے کا یہ طریقہ غیر شرعی ہے، اس کو علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد حرام قرار دیتی ہے، نیز اس حوالے سے اسلامی کانفرنس تنظیم کے تحت اسلامی فقہ اکادمی اور رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہی کونسل کی جانب سے دو بیانیے سامنے آ چکے ہیں ، نیز جو اہل علم اس عمل کے جواز کے قائل تھے انہوں نے بھی اس سے رجوع کر لیا، ذیل میں ان کے جاری کردہ بیانیہ کے کچھ مندرجات پیش خدمت ہیں:

1- اسلامی کانفرنس تنظیم کے تحت اسلامی فقہ اکادمی کا بیانیہ:

اسلامی فقہ اکادمی کا اجلاس منعقدہ: 8 – 13 صفر 1407 ہجری بمطابق 11 – 16 اکتوبر 1986 ء نے مصنوعی بار آوری جو کہ " Teste-tube baby " ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے نام سے مشہور ہے کے متعلق تحقیقی مقالات، طبی ماہرین اور متعلقہ افراد کی بیان کردہ تفصیلات اور بحث و مباحثہ کے بعد اجلاس اس بات پر متفق ہوا کہ:

مصنوعی بار آوری کے آج کل سات طریقے ہیں:

پہلا طریقہ: خاوند اور ایسی عورت کے بیضہ کے درمیان بار آوری کروائی جاتی ہے جو آپس میں میاں بیوی نہیں ہوتے، پھر اسی خاوند کی بیوی کے رحم میں اسے ڈال دیا جاتا ہے۔

دوسرا طریقہ: ایسے مردانہ سپرم اور عورت کے بیضہ کے درمیان بار آوری کروائی جاتی ہے کہ مرد اس کا خاوند نہیں ہوتا، پھر اسے بیوی کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے۔

تیسرا طریقہ: میاں بیوی کے سپرم اور بیضہ کے درمیان بیرونی بار آوری کروائی جاتی ہے اور پھر اسے کسی اور عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر یہ عورت ہی اسے جنم دیتی ہے۔

چوتھا طریقہ: دو اجنبی مرد اور عورت جو کہ آپس میں میاں بیوی نہیں ہیں ان کے سپرم اور بیضہ میں بیرونی بار آوری کروا کر بیوی کے رحم میں ڈال دیا جائے۔

پانچواں طریقہ: میاں بیوی کے سپرم اور بیضہ میں بیرونی بار آوری کروا کر اسے دوسری بیوی کے رحم میں ڈال دیا جائے۔

چھٹا طریقہ: خاوند کے نطفہ اور بیوی کے بیضہ کے درمیان بیرونی بار آوری کروائی جائے پھر اسے بیوی کے رحم میں ڈال دیا جائے۔

ساتواں طریقہ: خاوند کے سپرم لے کر اس کی بیوی کی اندام نہانی میں مناسب جگہ پر یا رحم میں داخلی بار آوری کروائی جائے۔

اور یہ فیصلہ کیا کہ:

پہلے پانچوں طریقے شرعی طور پر حرام اور ذاتی طور پر منع ہیں؛ کیونکہ اس طرح سے نسب میں اختلاط ہو گا، اور ممتا کی حیثیت ختم ہو جائے گی، ان میں اس کے علاوہ بھی دیگر شرعی قباحتیں موجود ہیں۔

جبکہ چھٹے اور ساتویں طریقے کے بارے میں اجلاس نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ضرورت کے وقت مکمل احتیاط کے ساتھ اس طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
" مجلة المجمع " (3/1/423)

2- رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہی کونسل کی قرار داد:

"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، رحمت و سلامتی ہو ہمارے سربراہ اور نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر، حمد و صلاۃ کے بعد:

اسلامی فقہی کونسل کا آٹھواں اجلاس رابطہ عالم اسلامی ، مکہ مکرمہ میں 28 ربیع الثانی 1405 ہجری بروز ہفتہ تا 7 جمادی اولی 1405 ہجری بروز سوموار بمطابق 19 – 28 فروری 1985 ء جاری رہا، جس میں گزشتہ ساتویں اجلاس منعقدہ 11 – 16 ربیع الثانی 1404 ہجری کی پانچویں قرار داد کے دوسرے حصے کے چوتھے پیراگراف میں “Teste-tube baby” ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے جواز پر تبصرے پیش کیے گئے تھے ان پر درج ذیل گفتگو ہوئی:
ساتواں طریقہ جس میں میاں بیوی کے سپرم اور بیضہ کو " Teste tube " ٹیسٹ ٹیوب میں بار آور کروا کر اسے اسی خاوند کی دوسری بیوی کے رحم میں پیوند کر دیا جاتا ہے، یہ دوسری بیوی رضاکارانہ طور پر اپنے مکمل اختیار سے اپنی ایسی سوکن کا جنین اپنے رحم میں رکھواتی ہے جس کی بچہ دانی نکال دی گئی تھی۔ اس مسئلے کے بارے میں فقہی کونسل یہ سمجھتی ہے کہ ضرورت اور مذکورہ عمومی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا کرنا جائز ہے۔"

اس رائے پر اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے:
"دوسری بیوی جس کے رحم میں پہلی بیوی کے بیضہ سے بنا جنین رکھا جا رہا ہو وہ ممکن ہے کہ اس جنین پر رحم کا منہ بند ہونے سے قبل خاوند کی ہم بستری کی وجہ سے دوبارہ حاملہ ہو جائے، اور جڑواں بچے پیدا ہوں تو یہ معلوم نہیں ہو پائے گا کہ کون خاوند کی ہم بستری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور کون سا بچہ پہلی بیوی کے بیضہ سے وجود میں آیا۔ اسی طرح یہ بھی ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی جنین علقہ، یا مضغہ کیفیت میں ساقط ہو جائے لیکن اس کا علم تب ہو جب دوسرے کی پیدائش ہو تو یہ معلوم نہیں ہو پائے گا کہ یہ جنین کون سا ہے؟ جس کی وجہ سے حقیقی ماں کا علم ہونا مشکل ہو جائے گا اور پھر اس کی وجہ سے دیگر ذیلی احکامات پر بھی منفی اثرات رونما ہوں گے، تو ان تمام خدشات کی وجہ سے مذکورہ حالت میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے بارے میں کونسل توقف اختیار کرتی ہے "

اراکین اجلاس نے حمل اور زچگی کے طبی ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایسی آرا کا بغور جائزہ لیا جس میں خاوند کے تعلقات کی وجہ سے دوسرے حمل کا امکان ہے اور والدہ کی جانب سے نسب میں اختلاط کا خدشہ ہے۔

اس مسئلے پر دو طرفہ مکمل بحث و تمحیص کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی کہ : ساتویں اجلاس منعقدہ 1404 ہجری میں جاری ہونے والے اعلامیہ میں ساتویں طریقے کی تیسری کیفیت کو جواز سے خارج کر دیا جائے۔" ختم شد

"قرارات المجمع الفقهي" (ص159-161)

مذکورہ بالا تفصیلات کی بنا پر:

ایک خاوند کی بیوی کے بیضہ اور سپرم کو بار آور کر کے اسی خاوند کی دوسری بیوی کے رحم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب