الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالی کے بارے میں اتنا ثابت ہے کہ اللہ تعالی کی ذات عرش پر اس طرح مستوی ہے جیسے اس کی شان اور کمال کے لائق ہے۔
اللہ تعالی کی اس صفت کا تذکرہ قرآن کریم میں سات جگہوں پر آیا ہے، ان میں سے ایک جگہ یہ بھی ہے:
إنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ
ترجمہ: یقینا تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر مستوی ہو گیا۔ الأعراف/54
تو استوا کی تفسیر میں مشہور قول یہ ہے کہ اس سے مراد بلندی اور رفعت ہے۔
جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب کا عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا ہے:
"باب ہے اس بارے میں کہ : (اللہ تعالی کا عرش پہلے پانی پر تھا) اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: (اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے) ابو العالیہ ؒ کہتے ہیں : "استوى إلى السماء" یعنی بلند ہوا، جبکہ مجاہد کہتے ہیں: استوی کا معنی ہے عرش پر بلند ہوا"
امام بغویؒ کہتے ہیں: "ثم استوى إلى السماء"کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر اکثر سلف مفسرین کا کہنا ہے کہ: اللہ تعالی کی ذات آسمان کی طرف مستوی ہوئی" ختم شد
تفسیر بغوی: (1/78)، امام بغوی سے ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کو فتح الباری : (13/417) میں نقل کیا ہے، اور مزید کہا ہے کہ: ابو عبیدہ ، فراء اور دیگر مفسرین کی بھی یہی رائے ہے۔
جبکہ ذات باری تعالی کے عرش پر بیٹھنے کے حوالے سے جو احادیث بیان کی جاتی ہیں تو وہ صحیح نہیں ہیں۔
تاہم بعض سلف صالحین نے اس کو استوا کی تفسیر میں صحیح مانا ہے، جیسے کہ امام خارجہ بن مصعب ضبعی ؒ سے مروی ہے کہ ان کے موقف کو عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے اپنی کتاب: السنة (1/ 105) میں نقل کیا ہے۔
اور اسی طرح امام دارقطنی ؒ نے اپنے مشہور اشعار کے اندر لفظ قعود کو اللہ تعالی کے لیے ثابت مانا ہے۔
اگر یہ الفاظ ثابت ہو بھی جائیں تو پھر بھی مخلوق سے اس بیٹھنے اور قعود کی کیفیت الگ ہو گی، مشابہت نہیں ہو گی۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب یہ بات واضح ہو گئی کہ فرشتوں اور انسانوں کی روحوں کی جو صفات نقل و حرکت اور اوپر نیچے سے تعلق رکھتی ہیں یہ آپس میں انسانی جسم کی حرکت کے مشابہ نہیں ہے، اسی طرح آنکھ سے دیکھی جانے والی دیگر دنیاوی چیزوں کی حرکتیں بھی آپس میں نہیں ملتی ، نیز روحوں وغیرہ میں وہ کچھ ممکن ہو سکتا ہے جو انسانی جسم میں ممکن نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالی کی صفات کو مخلوق کی صفات کی مشابہت سے دور ماننا زیادہ ضروری ہو گا کہ اللہ تعالی کی صفت نزول ایسے نہیں ہے جیسے مخلوق کے اجسام کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح میت کا قبر میں بیٹھنا ایسے نہیں ہو گا جیسے جسم بیٹھتا ہے، چنانچہ بعض آثار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو لفظ قعود اور جلوس اللہ تعالی کے لیے استعمال ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے کہ سیدنا جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، اسی طرح عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر روایات میں منقول ہے، اس میں موجود قعود اور جلوس کی صفت اور کیفیت بالاولی ایسی نہیں ہو گی جو بندوں کے جسموں سے مشابہت رکھتی ہو" ختم شد
مجموع الفتاوى (5/527)
محتاط موقف یہی لگتا ہے کہ اس لفظ کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے؛ کیونکہ یہ لفظ قرآن کریم یا صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے، نہ ہی صحابہ کرام کے اقوام سے ثابت ہوتا ہے۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"استوا کی تفسیر میں یہ کہنا کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر مستقر ہے، تو یہ تفسیر سلف صالحین سے مشہور ہے ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدہ نونیہ میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے اور دیگر سے بھی منقول ہے۔
جبکہ جلوس اور قعود کا لفظ بعض علمائے کرام سے منقول تو ہے لیکن میرا دل اس پر مطمئن نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔"
مجموع فتاوی ابن عثیمین(1/ 196)
اسی طرح الشیخ براک حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"بعض آثار میں لفظ جلس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف وارد ہوئی ہے کہ اللہ تعالی اپنی کرسی پر جیسے چاہے بیٹھا ہوا ہے، جبکہ بعض اہل علم نے اس لفظ کو مطلق ہی رکھا ہے۔
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گفتگو کا سیاق یہ محسوس کرواتا ہے کہ لفظ استوا میں قعود شامل ہے۔ تاہم پھر بھی بہتر یہی ہے کہ اس لفظ کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے تا آں کہ یہ لفظ صحیح ثابت ہو جائے۔" ختم شد
"شرح الرسالة التدمرية" ص 188
مذکورہ بالا تفصیلات کے بعد خلاصہ یہ ہے کہ:
لفظ "جلس" اللہ تعالی کی ذات کے لیے استعمال نہ کیا جائے "استوى على العرش" کہا جائے، اور پھر استوا کا معنی بلند و بالا ہونے سے کیا جائے۔
کیونکہ سلف صالحین سے منقول الفاظ پر اکتفا کی صورت میں کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں بنتا۔
لیکن دھیان میں رہے کہ ایسے الفاظ عامۃ الناس کے سامنے نہ بولے جائیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ لوگ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے اور تشبیہ کا ارتکاب کر بیٹھیں گے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ یہ تعبیر کفریہ نہیں ہے، بلکہ ایک اختلافی صفت استوا کی تفسیر ہے۔
اور ہم نے یہ بھی بتلا دیا ہے کہ یہاں بہتر یہی ہے کہ ان الفاظ کو استعمال نہ کیا جائے۔
واللہ اعلم