الحمد للہ.
صحيح يہ ہے كہ نہ تو اس ميں غلو كيا جائے اور نہ ہى كمى، دعا اتنى لمبى كرنا كہ لوگوں پر مشقت ہو يہ ممنوع ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك يہ بات پہنچى كہ معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ اپنى قوم كے لوگوں كو لمبى نماز پڑھاتے ہيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان پر بہت ناراض اور غصہ ہوئے، انہوں نے كبھى كسى وعظ ميں اتنى ناراضگى نہيں كى، اور معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا:
" اے معاذ كيا تم فتنہ باز ہو "
صحيح بخارى كتاب الادب حديث نمبر ( 6106 ) صحيح مسلم كتاب الصلوۃ حديث نمبر ( 465 ).
لہذا انہي كلمات پر اكتفاء كرنا جو احاديث ميں وارد ہيں، يا پھر كچھ زيادہ كر لے.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ دعا كو بہت زيادہ لمبا كرنا لوگوں كے ليے مشقت اور انہيں كے ليے تكليف كا باعث بنتا ہے، اور خاص كر كمزور اور ضعيف لوگوں كے ليے، اور لوگوں ميں بعض لوگوں نے كام كاج پر بھى جانا ہوتا ہے، ليكن وہ امام سے قبل جانا پسند نہيں كرتے، اور امام كے ساتھ رہنا ان كے ليے مشكل اور مشقت كا باعث ہوتا ہے، لہذا ميرى امام بھائيوں سے گزارش ہے كہ وہ ميانہ روى سے كام ليں، اور اسى طرح انہيں بعض اوقات دعاء نہيں كرنى چاہيے تا كہ عام لوگ يہ خيال نہ كريں كہ دعا واجب اور فرض ہے.
واللہ اعلم .