جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ہبہ، عطیہ، اور صدقہ کرنے والے کی مراد سے ہٹ کر مال کسی اور جگہ خرچ کرنا جائز ہے؟

سوال

میرے ایک قریبی رشتہ دار نے ملازمت کی تلاش میں دوسرے شہر کا سفر کرنے کا پروگرام بنایا تو اس کے والد اور بھائیوں نے مل کر اسے رقم جمع کر کے دی کہ سفر میں کام آئے گی۔ پھر جب اس رشتہ دار نے مجھے دیکھا تو اس نے اس میں سے قابل ذکر حصہ مجھے ہدیہ کے طور پر دے دیا، تو کیا میرے لیے یہ مال وصول کرنا جائز ہے؟ کیونکہ مجھے غالب گمان ہے کہ اگر اس کے گھر والوں کو علم ہو گیا تو ناراض ہوں گے؛ کیونکہ یہاں ان کے مقصد سے ہٹ کر مال کو خرچ کیا گیا ہے، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے جنہوں نے اسے رقم جمع کر کے دی ہے انہیں اس مال کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہو۔ یا یہ ہے کہ اب یہ رقم اس کی ملکیت ہے اور وہ اس رقم کے ساتھ جو چاہے کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر اس شخص کو رقم سفر کی غرض سے دی گئی ، جیسے کہ سوال میں سے عیاں ہو رہا ہے تو پھر وہ شخص اس رقم کو کہیں اور خرچ نہیں کر سکتا، نہ ہی اس میں سے کسی کو ہدیہ کر سکتا ہے، اگر کہیں اور دینا چاہے تو دینے والوں کی اجازت سے دے گا۔

اور اگر کچھ رقم بچ جاتی ہے تو بچی ہوئی رقم واپس کرنا لازم ہے۔

اور اگر اسے ہدیہ، تحفہ یا صدقے کے طور پر مال دیا گیا، اور یہ معین نہیں کیا گیا کہ رقم اس نے کہاں خرچ کرنی ہے، یا مال دینے کا کوئی واضح سبب بھی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے پتہ چلتا ہو کہ اسے یہ رقم کیوں دی گئی ہے؟ تو پھر وہ جیسے مرضی اس رقم کو استعمال کر سکتا ہے۔

جیسے کہ الشیخ زکریا انصاری رحمہ اللہ کی کتاب: "أسنى المطالب" (2/ 479) میں ہے کہ:
"اگر کوئی آپ کو درہم دے اور کہے: ان سے اپنے لیے عمامہ خرید لو، یا حمام میں جا کر نہا لو، یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہے تو پھر عطیہ کنندہ کے مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی مد میں ہی خرچ کرنا لازم ہے۔ یہ اس لیے کہ عطیہ دینے والے نے اس کا سر ننگا دیکھا تو چاہا کہ عمامہ کے ذریعے سر ڈھانپ لے، یا پراگندہ بال اور جسم دیکھا تو جسم کی صفائی ستھرائی دینے والا کا مقصود تھا۔ اور اگر دینے والے کا ایسا کوئی مقصد نہ ہو بلکہ روٹین میں اس نے رقم دے دی تو پھر اسی خاص جگہ پر خرچ کرنا متعین نہیں ہو گا، بلکہ لینے والا اس رقم کا مالک بن گیا ہے وہ جہاں بھی چاہے اسے خرچ کر سکتا ہے۔" ختم شد

الشیخ سلیمان بن عمر الجمل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی کسی کو کھجور روزہ افطار کرنے کے لیے دے تو ظاہری حالت و کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر اس کھجور سے افطاری کرنا لازم ہے، اس کھجور کو وہ کہیں اور استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ کھجور دینے والے کا مقصد افطاری ہے۔" ختم شد
"حاشية الجمل على شرح المنهج" (2/ 328)

علامہ دردیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ایک جماعت یا کوئی فرد واحد کسی غلام کی مدد کرے، اور غلام اس مال کو اپنی مکاتبت میں ادا کر دے اور پھر بھی کچھ رقم بچ جائے، یا رقم پوری نہ ہو سکے بلکہ مکاتبت کی رقم کم ہو تو: اگر دینے والوں کا مقصد صدقہ نہیں تھا بلکہ غلام کو آزاد کروانا تھا یا کوئی مقصد ہی نہیں تھا انہوں نے کسی مقصد کو متعین کیے بغیر رقم دی تھی تو رقم بچ جانے کی صورت میں غلام سے واپس لے لیں گے، اور اگر رقم کم رہ جائے تو پھر غلام کے آقا سے رجوع کریں گے کہ اس نے ان کی دی ہوئی رقم میں سے کتنی وصول کی ہے؟ کیونکہ دینے والوں کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ اور اگر دینے والوں کا مقصد مکاتب غلام پر صدقہ کرنا تھا تو اب وہ بچ جانے والی رقم واپس نہیں لے سکتے اور اگر رقم کم رہ جائے تو تب بھی غلام کے آقا سے پوچھ نہیں سکتے کہ اس نے کتنی رقم وصول کی ہے؛ کیونکہ یہاں رقم دیتے ہوئے غلام کو دینا مقصد تھا، اس لیے غلام اس رقم کو وصول کرتے ہی اس کا مالک بن گیا۔" ختم شد
الشرح الكبير ، از علامہ دردیر رحمہ اللہ (4/ 404)

اس بنا پر آپ کو جب اپنے عزیز کی صورت حال کا علم ہے تو آپ اس سے تحفہ قبول نہیں کر سکتے، نیز آپ پر لازم ہے کہ وصول کردہ رقم انہیں واپس کریں اور جو ہم نے تفصیلات بتلائی ہیں یہ بھی ان کے سامنے رکھیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب