الحمد للہ.
وجوب زكاۃ كى شروط ميں سال كا پورا ہونا بھى شامل ہے، وہ اس طرح كہ نصاب تك پہنچنے والے مال پر سال گزر جائے؛ اس كى دليل مندرجہ ذيل نبى صلى للہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مال ميں اس وقت تك زكاۃ نہيں جب تك اس پر سال نہ گزر جائے "
اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 787 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور سونا، چاندى اور نقد رقم، اور جانوروں كى زكاۃ كے وجوب ميں سال گزرنے كى شرط ہے.
اور سال كے دوران حاصل ہونے والے مال كى دو قسميں ہيں:
اول:
جو اصل مال سے حاصل ہونے والا نفع ہو، تو اس كا سال اصل مال كا سال ہى شمار ہو گا.
دوم:
جو مال مستقل ہو جو كسى اور طرح سے حاصل ہوا مثلا وراثت، يا ہبہ اور ہديہ، يا اپنى تنخواہ سے جمع كيا ہو، تو اس پر زكاۃ اس وقت ہى واجب ہو گى جب نصاب كو پہنچ جانے كے بعد سال گزر جائے.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ اس كے پاس رمضان المبارك ميں جو مال متوفر ہو اور اس پر سال گزر گيا ہو تو اس كى زكاۃ ادا كردے، اور جس پر سال نہيں گزار اس پر بھى زكاۃ ادا كر سكتا ہے، اور يہ زكاۃ وقت سے پہلے شمار ہو گى، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے، جسے ابو داود، ترمذى، اور ابن ماجہ اور حاكم نے روايت كيا اور حاكم نے اسے صحيح كہا ہے:
عباس رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سال پورا ہونے سے قبل ہى زكاۃ جلدى دينے كے بارہ ميں دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے كى انہيں رخصت دے دى"
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 545 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
اور ايسا كرنے ميں انسان كے ليے آسانى ہے كہ وہ ہر حاصل ہونے والے مال كے ليے مستقل سال كا حساب ركھے، تا كہ وہ كسى دوسرے ميں خلط ملط نہ ہو جائے، اور اس طرح زكاۃ كا حساب صحيح نہ رہے اور زكاۃ ميں سے كچھ اس كے ذمہ ہو جائے.
يا پھر اسے شك اور اشكال پيدا ہو جائے كہ پتہ نہيں اس نے پورى زكاۃ نكال دى ہے يا نہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 26113 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .